اسلام آباد —
ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ دورِ حاضر کے تقاضوں کے تحت پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کی عدم موجودگی اور کسی واضح منصوبہ بندی کے تحت جنگ نہ لڑنے کی وجہ سے شدت پسندوں کی کارروائیاں تا حال جاری ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والی بین الاقوامی ادارے انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’’گلوبل انڈ کس فار 2012‘‘ کے مطابق دنیا کے 158 ملکوں میں سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں رواں سال دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے جب کہ عراق پرتشدت حملوں سے متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ہوئے اور مجموعی طور پر ملک میں ان کارروائیوں میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں پاکستان ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور اس لڑائی میں اس کے نہ صرف ہزاروں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ معیشت کو اربوں ڈالر کا خسارا بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔
تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی یہاں پرتشدد کارروائیاں کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے۔
دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود کہتے ہیں کہ صرف فوجی کارروائیوں سے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں۔
’’فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں مگر آپ نے ان مسائل کو حل کرنا ہے جس وجہ سے مقامی لوگ تحریک طالبان میں شامل ہوئے۔ آپ ترقیاتی کام کریں، لوگوں کو روزگار دیں، تعلیم دیں۔‘‘
انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئرمین طاہر حیسن کہتے ہیں کہ صرف بلوچستان میں فرقہ وارانہ پرتشدد واقعات میں رواں سال 140 افراد مارے گئے۔
ان کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے مؤثر کارروائیاں نہ ہونے کے سبب کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں ملک بھر میں ’’کھلے عام‘‘ سرگرم عمل ہیں۔
’’حکومت نے ابھی تک کچھ کیا نہیں کہ ان (کالعدم تنظیموں) کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ وہ کہاں سے فنڈز لاتے ہیں؟ اب تو فنڈز کے لیے انہوں نے اغواء کاری شروع کردی ہے۔‘‘
تاہم وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ حکومت دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
’’جب ہم آئے تھے تو کہتے تھے کہ وہ (شدت پسند) مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں لیکن لیڈر شپ ان کے خلاف کھڑی ہوئی اور فوج نے انہیں مار بھگایا اور انشاء اللہ ہم انہیں ختم کریں گے۔‘‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ ملکی قوانین میں تبدیلی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال اور جدید تقاضوں پر استوار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ممکن نہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والی بین الاقوامی ادارے انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’’گلوبل انڈ کس فار 2012‘‘ کے مطابق دنیا کے 158 ملکوں میں سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں رواں سال دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے جب کہ عراق پرتشدت حملوں سے متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ہوئے اور مجموعی طور پر ملک میں ان کارروائیوں میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں پاکستان ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور اس لڑائی میں اس کے نہ صرف ہزاروں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ معیشت کو اربوں ڈالر کا خسارا بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔
تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی یہاں پرتشدد کارروائیاں کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے۔
دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود کہتے ہیں کہ صرف فوجی کارروائیوں سے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں۔
’’فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں مگر آپ نے ان مسائل کو حل کرنا ہے جس وجہ سے مقامی لوگ تحریک طالبان میں شامل ہوئے۔ آپ ترقیاتی کام کریں، لوگوں کو روزگار دیں، تعلیم دیں۔‘‘
انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئرمین طاہر حیسن کہتے ہیں کہ صرف بلوچستان میں فرقہ وارانہ پرتشدد واقعات میں رواں سال 140 افراد مارے گئے۔
ان کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے مؤثر کارروائیاں نہ ہونے کے سبب کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں ملک بھر میں ’’کھلے عام‘‘ سرگرم عمل ہیں۔
’’حکومت نے ابھی تک کچھ کیا نہیں کہ ان (کالعدم تنظیموں) کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ وہ کہاں سے فنڈز لاتے ہیں؟ اب تو فنڈز کے لیے انہوں نے اغواء کاری شروع کردی ہے۔‘‘
تاہم وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ حکومت دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
’’جب ہم آئے تھے تو کہتے تھے کہ وہ (شدت پسند) مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں لیکن لیڈر شپ ان کے خلاف کھڑی ہوئی اور فوج نے انہیں مار بھگایا اور انشاء اللہ ہم انہیں ختم کریں گے۔‘‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ ملکی قوانین میں تبدیلی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال اور جدید تقاضوں پر استوار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ممکن نہیں۔