رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف پاک افغان تعاون 'خوش آئند' ہے: مبصرین


پاکستانی فوج کے سربراہ کی افغان صدر سے ملاقات (فائل فوٹو)
پاکستانی فوج کے سربراہ کی افغان صدر سے ملاقات (فائل فوٹو)

معروف دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بہرحال موجود ہیں لیکن ان کی سوچ میں ماضی کی نسبت مثبت تبدیلی آئی ہے۔

افغانستان میں گزشتہ برس نئی حکومت کے قیام کے بعد اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ماضی کی نسبت بہتر اور مثبت انداز میں آگے بڑھتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔

اس کا اعتراف پاکستانی حکومتی عہدیدار تو کر ہی رہے ہیں لیکن اب مبصرین بھی دونوں ہمسایہ ملکوں کی قیادت کی سوچ کو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہم آہنگ قرار دے رہے ہیں۔

رواں ہفتے ہی یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ افغانستان نے اپنے سرحدی علاقے سے ایسے پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جو حکام کے بقول مبینہ طور پر گزشتہ ماہ پاکستانی شہر پشاور کے ایک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث تھے۔

16 دسمبر کو اس حملے میں 134 بچوں سمیت کم ازکم 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے فوری بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل کا ہنگامی دورہ کر کے وہاں سیاسی و عسکری قیادت کو افغانستان میں موجود ایسے عناصر کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں جن کے اس حملے میں ملوث ہونے کا پتا چلا تھا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی اس دہشت گرد حملے کی تحقیقات میں بھرپور تعاون کا یقین دلا چکے ہیں۔

معروف دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بہرحال موجود ہیں لیکن ان کی سوچ میں ماضی کی نسبت مثبت تبدیلی آئی ہے۔

"پاکستان اور افغانستان کے آپس مں اختلافات ہیں لیکن اتنے نہیں کہ ہم دشمنوں کی طرح لڑتے رہیں۔ دو بڑی ڈویلپمنٹس ہوئی ہیں ایک تو امریکہ نے جو فضل اللہ کو عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے وہ بھی افغانستان کے کہنے پر اور پھر افغان آرمی نے کنڑ میں جو فوجی آپریشن کیا شدت پسندوں کے خلاف۔۔۔تو میں سمجھتا ہوں کہ اب دونوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور یہ معاملات کے حل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔"

فضل اللہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ہے جس نے پشاور اسکول حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستانی حکام کے بقول وہ مشرقی افغان علاقے میں روپوش ہے۔

پاکستانی فوج نے گزشتہ سال جون سے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک لگ بھگ دو ہزار ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

پاکستان اس آپریشن کے آغاز ہی سے افغانستان سے مطالبہ کرتا رہا کہ وہ سرحد پر نگرانی کو موثر بنائے اپنے ہاں موجود شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ شمالی وزیرستان سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو کہیں جائے پناہ نہ مل سکے۔

لیکن سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں پاکستانی حکام یہ شکوہ کرتے دکھائی دیے کہ کابل دہشت گردی کے خلاف درکار تعاون فراہم نہیں کر رہا۔

ادھر شائع شدہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بھی پاکستان اور افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مل کر کام کریں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہارف نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔

XS
SM
MD
LG