اسلام آباد —
طالبان سے براہ راست بات چیت سے متعلق امور پر مشاورت کے لیے پیر کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سرکاری مزاکراتی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی۔
وزارت کے ایک عہدیدار کے مطابق اس نشست میں فوج کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لفٹینیٹ جنرل ظہیرالسلام بھی موجود تھے۔
نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے یا مطالبات سامنے نہیں آئے تاہم بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ حکومت طالبان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اغواء کیے گئے صاحبزادوں کے علاوہ پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کرے گی۔
شدت پسندوں کے نامزد کردہ مذاکرات کار محمد یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بارے میں کہنا تھا۔
’’حکومت کی مرضی ہے اگر وہ یہ مطالبات مٰن شامل کر تے ہیں تو کریں۔ جب ملیں گے تو طالبان کی طرف سے بھی مطالبات آئیں گے۔‘‘
یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادوں اور پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی سے متعلق مطالبہ حکومت نے ان کی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں کی تحویل میں 300 غیر عسکری افراد کی رہائی سے مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے بقول ایک تجویز پیش کی گئی۔
حکومت کی طرف سے ابھی تک ان لوگوں کی رہائی سے متعلق کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
ادھر صوبہ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے نے اس تاثر کو رد کیا کہ حالیہ دنوں میں صوبے سے شدت پسندوں کی ملک کی دیگر جیلوں میں منتقلی کا مذاکراتی عمل سے کوئی تعلق ہے۔
’’ہم انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں، جب خبر ملی کہ وہ جیلوں میں بیٹھ کر جرائم کا حصہ بنتے ہیں تو حکومت نے اقدامات کیے۔‘‘
گزشتہ ہفتے حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم نے اعلان کیا کہ وہ شدت پسندوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے ایک مقام پر متفق ہو گئے ہیں تاہم سلامتی کے خدشات کے پیش نظر اسے صیغہ راز میں رکھا گیا۔
طالبان کی طرف سے حکومت کو مذاکراتی عمل کے لیے ایک ایسا مقام مختص کرنے کا کہا گیا تھا جہاں فوج کا عمل دخل نا ہو اور وہ نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔
یوسف شاہ کے بقول طالبان اور سرکاری کمیٹی کی ملاقات آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
وزارت کے ایک عہدیدار کے مطابق اس نشست میں فوج کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ لفٹینیٹ جنرل ظہیرالسلام بھی موجود تھے۔
نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے یا مطالبات سامنے نہیں آئے تاہم بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ حکومت طالبان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اغواء کیے گئے صاحبزادوں کے علاوہ پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کرے گی۔
شدت پسندوں کے نامزد کردہ مذاکرات کار محمد یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بارے میں کہنا تھا۔
’’حکومت کی مرضی ہے اگر وہ یہ مطالبات مٰن شامل کر تے ہیں تو کریں۔ جب ملیں گے تو طالبان کی طرف سے بھی مطالبات آئیں گے۔‘‘
یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادوں اور پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر محمد اجمل خان کی رہائی سے متعلق مطالبہ حکومت نے ان کی کمیٹی کے سامنے نہیں رکھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی طرف سے مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں کی تحویل میں 300 غیر عسکری افراد کی رہائی سے مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے بقول ایک تجویز پیش کی گئی۔
حکومت کی طرف سے ابھی تک ان لوگوں کی رہائی سے متعلق کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔
ادھر صوبہ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے نے اس تاثر کو رد کیا کہ حالیہ دنوں میں صوبے سے شدت پسندوں کی ملک کی دیگر جیلوں میں منتقلی کا مذاکراتی عمل سے کوئی تعلق ہے۔
’’ہم انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں، جب خبر ملی کہ وہ جیلوں میں بیٹھ کر جرائم کا حصہ بنتے ہیں تو حکومت نے اقدامات کیے۔‘‘
گزشتہ ہفتے حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم نے اعلان کیا کہ وہ شدت پسندوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے ایک مقام پر متفق ہو گئے ہیں تاہم سلامتی کے خدشات کے پیش نظر اسے صیغہ راز میں رکھا گیا۔
طالبان کی طرف سے حکومت کو مذاکراتی عمل کے لیے ایک ایسا مقام مختص کرنے کا کہا گیا تھا جہاں فوج کا عمل دخل نا ہو اور وہ نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔
یوسف شاہ کے بقول طالبان اور سرکاری کمیٹی کی ملاقات آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔