اسلام آباد —
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے طالبان سے مذاکرات کے بارے میں کوئی ’ڈیڈ لاک‘ نہیں ہے تاہم اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کا انتہائی حساس مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔
چوہدری نثار نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی کمیٹی اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین پر دونوں جانب سے کسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
’’کوئی بڑا ایشو نہیں ہے جگہ کا، اس پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے۔ نا ہماری طرف سے ضد ہے نا اُن کی طرف سے ضد ہے۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں قیام امن کے لیے حکومت کی طرف سے مذاکراتی عمل شروع کیے جانے کے بعد بات چیت کا مرحلہ اب نازک موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔
’’پچھلے چار پانچ مہینوں میں جو سب سے زیادہ حساس مرحلہ ہے وہ شروع ہونے والا ہے کہ براہ راست مذاکرات شروع ہونے والے ہیں… اور ہم بہت تیزی سے اس طرف پیش رفت کر رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں حکومتی کمیٹی اور طالبان کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔‘‘
تاہم اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ عناصر جو مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
’’دوسری طرف سے عدم تشدد کا اعلان ہوا ہے، اس میں اور بہتری آتی جائے گی۔ اس میں کچھ عناصر ہیں جو ہمارے نشانے پر ہیں، اگر وہ لوگ سبوتاژ کرنے کی کوششوں سے باز نا آئے تو اُس پر ایک واضح طریقہ کار بن چکا ہے۔ ہم اُن کے خلاف کارروائی ضرور کریں گے۔‘‘
اُدھر طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کے رکن یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحریک طالبان کی شوریٰ یہ چاہتی ہے کہ ایسے مقام پر بات چیت ہو جہاں وہ آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں۔
’’طالبان نے کوئی مطالبہ یا شرط نہیں رکھی تھی۔ اُنھوں نے (پیس زون) اور غیر عسکری قیدیوں کے بارے میں بھی اُنھوں نے کہا تھا کہ اگر غیر عسکری قیدیوں کو رہا کیا تو (بات چیت کا) سفر آسان ہو گا۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان کہا تھا کہ اُنھوں نے غیر عسکری قیدیوں کی فہرست اپنی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے حکومت تک پہنچائی تھی۔
حکام کہہ چکے ہیں کہ متعلقہ ادارے فہرست کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاہم عسکری حکام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ طالبان کے اہل خانہ میں سے کوئی بھی فورسز کی تحویل میں نہیں ہے۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت نے حال ہی میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جس کی قیادت وفاقی سیکرٹری حبیب اللہ خٹک کر رہے ہیں۔
حکومت کی تشکیل کردہ پہلی کمیٹی نے رواں سال کے اوائل میں طالبان کی نامزد شخصیات سے مذاکرات شروع کیے تھے۔ لیکن دہشت گرد حملوں کے بعد بات چیت کے اس عمل میں تعطل بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تاہم طالبان نے مذاکرات کی بحالی کے لیے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کے لیے حکومت نے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی۔
چوہدری نثار نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی کمیٹی اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین پر دونوں جانب سے کسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
’’کوئی بڑا ایشو نہیں ہے جگہ کا، اس پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے۔ نا ہماری طرف سے ضد ہے نا اُن کی طرف سے ضد ہے۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں قیام امن کے لیے حکومت کی طرف سے مذاکراتی عمل شروع کیے جانے کے بعد بات چیت کا مرحلہ اب نازک موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔
’’پچھلے چار پانچ مہینوں میں جو سب سے زیادہ حساس مرحلہ ہے وہ شروع ہونے والا ہے کہ براہ راست مذاکرات شروع ہونے والے ہیں… اور ہم بہت تیزی سے اس طرف پیش رفت کر رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں حکومتی کمیٹی اور طالبان کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔‘‘
تاہم اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ عناصر جو مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
’’دوسری طرف سے عدم تشدد کا اعلان ہوا ہے، اس میں اور بہتری آتی جائے گی۔ اس میں کچھ عناصر ہیں جو ہمارے نشانے پر ہیں، اگر وہ لوگ سبوتاژ کرنے کی کوششوں سے باز نا آئے تو اُس پر ایک واضح طریقہ کار بن چکا ہے۔ ہم اُن کے خلاف کارروائی ضرور کریں گے۔‘‘
اُدھر طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی کے رکن یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تحریک طالبان کی شوریٰ یہ چاہتی ہے کہ ایسے مقام پر بات چیت ہو جہاں وہ آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں۔
’’طالبان نے کوئی مطالبہ یا شرط نہیں رکھی تھی۔ اُنھوں نے (پیس زون) اور غیر عسکری قیدیوں کے بارے میں بھی اُنھوں نے کہا تھا کہ اگر غیر عسکری قیدیوں کو رہا کیا تو (بات چیت کا) سفر آسان ہو گا۔‘‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان کہا تھا کہ اُنھوں نے غیر عسکری قیدیوں کی فہرست اپنی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے حکومت تک پہنچائی تھی۔
حکام کہہ چکے ہیں کہ متعلقہ ادارے فہرست کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاہم عسکری حکام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ طالبان کے اہل خانہ میں سے کوئی بھی فورسز کی تحویل میں نہیں ہے۔
طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت نے حال ہی میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جس کی قیادت وفاقی سیکرٹری حبیب اللہ خٹک کر رہے ہیں۔
حکومت کی تشکیل کردہ پہلی کمیٹی نے رواں سال کے اوائل میں طالبان کی نامزد شخصیات سے مذاکرات شروع کیے تھے۔ لیکن دہشت گرد حملوں کے بعد بات چیت کے اس عمل میں تعطل بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تاہم طالبان نے مذاکرات کی بحالی کے لیے مارچ کے اوائل میں ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کے لیے حکومت نے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی۔