اسلام آباد —
نواز شریف انتظامیہ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے رستم شاہ مہمند کا نام تجویز کیا ہے۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور اور سرکاری مذاکرتی ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ طے پایا تھا کہ طالبان سے ملاقات کے لیے جانے والے وفد میں اس بار سرکاری کمیٹی کا نمائندہ بھی شامل ہوگا اور اس کے لیے سابق سفیر کا نام پیش کیا گیا تھا۔
رستم شاہ مہمند سرکاری ٹیم میں خیبرپختونخوا کی حکمران اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کررہے ہیں۔
ادھر اتوار ہی کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور جماعت کے عہدیداروں کے مطابق دونوں شخصیات میں امن مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔
تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی میں شامل جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں سے بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز حکومت کی طرف سے مجوزہ نئے مذاکرات کاروں کی کمیٹی کے قیام کا منتظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ امن کے لیے ایک علاقہ مختص کیا جائے جہاں فوج کا عمل دخل نا ہو اور جہاں وہ اپنی نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق بھی اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ایک ضلع، تحصیل یا ایک شہر کم از کم وہ بالکل ’پیس زون‘ ہو تاکہ ہمارے لوگ بھی وہاں جا کر بیٹھ سکیں اور طالبان بھی۔ یہ تو مذاکرات ہیں بار بار وہاں جانا ہوگا۔ ہم سے زیادہ حکومتی کارندوں اور حکومتی کمیٹی کو اس کی ضرورت ہے۔‘‘
تاہم جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر کے بقول حکومت نے ابھی تک عسکریت پسندوں کے اس مطالبے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
گزشتہ دنوں میں چند مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ نواز انتظامیہ نئی مجوزہ مذاکراتی ٹیم میں فوجی عہدیدار کو شامل کرنے کا سوچ رہی ہے۔
پروفیسر ابراہیم اور عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ تجویز ان کی طرف سے نہیں پیش کی گئی۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور کا کہنا تھا کہ ’’اب آگے کے جو مراحل ہیں شاید اس میں کوئی بڑے اہم امور کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ تو حکومت ایسی کمیٹی تشکیل دے جو سرکاری، ریاستی عہدیداروں پر مشتمل ہو اور وہ موقع پر فاسٹ ٹریک پر فیصلے کر سکے۔‘‘
حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مذاکرات میں فوج کے نمائندے کی شمولیت کی مخالفت کی ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا شدت پسندوں کو ریاست کے برابر حیثیت دینے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان کا ایک موقر انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’یہ وردی پہنے لوگوں کا کام نہیں۔ فوج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف ایک بھرپور کارروائی کا آغاز کرے جب حکومت فیصلہ کر لے کہ تحریک طالبان نے مذاکرات ترک کردیے ہیں۔‘‘
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور اور سرکاری مذاکرتی ٹیم کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ طے پایا تھا کہ طالبان سے ملاقات کے لیے جانے والے وفد میں اس بار سرکاری کمیٹی کا نمائندہ بھی شامل ہوگا اور اس کے لیے سابق سفیر کا نام پیش کیا گیا تھا۔
رستم شاہ مہمند سرکاری ٹیم میں خیبرپختونخوا کی حکمران اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کررہے ہیں۔
ادھر اتوار ہی کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور جماعت کے عہدیداروں کے مطابق دونوں شخصیات میں امن مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔
تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی میں شامل جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں سے بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز حکومت کی طرف سے مجوزہ نئے مذاکرات کاروں کی کمیٹی کے قیام کا منتظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ امن کے لیے ایک علاقہ مختص کیا جائے جہاں فوج کا عمل دخل نا ہو اور جہاں وہ اپنی نقل و حرکت میں آزاد ہوں۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مولانا سمیع الحق بھی اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ایک ضلع، تحصیل یا ایک شہر کم از کم وہ بالکل ’پیس زون‘ ہو تاکہ ہمارے لوگ بھی وہاں جا کر بیٹھ سکیں اور طالبان بھی۔ یہ تو مذاکرات ہیں بار بار وہاں جانا ہوگا۔ ہم سے زیادہ حکومتی کارندوں اور حکومتی کمیٹی کو اس کی ضرورت ہے۔‘‘
تاہم جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر کے بقول حکومت نے ابھی تک عسکریت پسندوں کے اس مطالبے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
گزشتہ دنوں میں چند مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ نواز انتظامیہ نئی مجوزہ مذاکراتی ٹیم میں فوجی عہدیدار کو شامل کرنے کا سوچ رہی ہے۔
پروفیسر ابراہیم اور عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ تجویز ان کی طرف سے نہیں پیش کی گئی۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور کا کہنا تھا کہ ’’اب آگے کے جو مراحل ہیں شاید اس میں کوئی بڑے اہم امور کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ تو حکومت ایسی کمیٹی تشکیل دے جو سرکاری، ریاستی عہدیداروں پر مشتمل ہو اور وہ موقع پر فاسٹ ٹریک پر فیصلے کر سکے۔‘‘
حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مذاکرات میں فوج کے نمائندے کی شمولیت کی مخالفت کی ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا شدت پسندوں کو ریاست کے برابر حیثیت دینے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان کا ایک موقر انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’یہ وردی پہنے لوگوں کا کام نہیں۔ فوج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف ایک بھرپور کارروائی کا آغاز کرے جب حکومت فیصلہ کر لے کہ تحریک طالبان نے مذاکرات ترک کردیے ہیں۔‘‘