اسلام آباد —
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے فائربندی کی خلاف ورزی کی صورت میں حکومت ان کے ٹھکانوں کے خلاف بمباری یا کارروائی کے لیے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے سے بالکل نہیں ہچکچائے گی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو جمعہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے متنبہ کیا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو اسی ماہ میں شدت پسندوں کے خلاف پوری قوت سے آپریشن شروع کیا جا سکتا ہے۔
’’اس میں اب مہینوں نہیں لگیں گے، ہمیں مارچ کے مہینے میں ہی مارچ کرنا ہوگا۔۔۔ اگر فائر بندی ہے تو اس کی مکمل پاسداری ہونی چاہیئے۔ اس کے بغیر ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘
حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے ہی طالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
لیکن اس اعلان کے بعد بھی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کچہری کمپلیکس کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔
کالعدم تحریک طالبان نے ان واقعات سے اظہار لاتعلقی کیا لیکن جن غیر معروف تنظیموں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکی ہیں لیکن اب ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔
وفاقی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے واقعات پر ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی۔‘‘
’’اگر ہم پر حملہ ہوتا ہے تو یہ ریاست پر حملہ ہے، شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم اس کا جواب دیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اب بہت کم ایسے حلقے رہ گئے ہیں جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔
’’دہشت گردانہ حملے کے چار روز بعد بھی طالبان نے ان منحرف گروپوں کی مذمت نہیں کی۔ وہ (طالبان) کہتے ہیں کہ ہم نے فائربندی کی خلاف ورزی نہیں کی، یہ چھوٹے گروپ ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں۔‘‘ وزیردفاع کے بقول ’’ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے۔‘‘
مذاکراتی عمل میں فوج کی شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’’فوج کا نقطہ نظر بہت گراں قدر ہے، یہ لوگ اگلی صفوں میں ہوتے ہیں اور انھوں نے ہمارے فیصلوں کو نافذ کرنا ہے۔‘‘
ایک روزقبل ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’طالبان‘‘ سے براہ راست مذاکرات کا عمل آئندہ ہفتے شروع ہو سکتا ہے۔
تاہم اُنھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کرنے والوں میں کون سے اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
مذاکرات کے لیے حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی یہ کہہ چکے ہیں اب ایک نئی کمیٹی کی ضرورت ہے جس میں ایسے افراد شامل ہونے چاہیئں جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہوں۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ نئی کمیٹی یا اس میں شامل افراد کا فیصلہ وزیراعظم ہی کریں گے۔
اُدھر جمعہ کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرز کا اجلاس جاری ہے جس میں عسکری ذرائع کے مطابق یہ کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
تاہم کور کمانڈز اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بیان کے مطابق اجلاس میں سلامتی کی مجموعی صورت پر تفصیلی غور کیا گیا۔
ملک میں اکثر سیاسی و سماجی حلقوں کے درمیان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی پر منقسم آراء پائی جاتی ہے۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کو ایک موقع دیا جانا چاہیئے جب کہ بعض کے نزدیک شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی ہی اس مسئلے کا حل ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹیوں کو ارکان سے ملاقات میں کہا تھا کہ ’’بطور وزیراعظم یہ میرا آئینی، دینی، قومی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے کہ میں آگ اور خون کا سلسلہ بند کر کے ملک اور عوام کو امن دوں۔ میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی اور بدامنی کی بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اور ان کے بقول امن کا قیام ناگزیر ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو جمعہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے متنبہ کیا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو اسی ماہ میں شدت پسندوں کے خلاف پوری قوت سے آپریشن شروع کیا جا سکتا ہے۔
’’اس میں اب مہینوں نہیں لگیں گے، ہمیں مارچ کے مہینے میں ہی مارچ کرنا ہوگا۔۔۔ اگر فائر بندی ہے تو اس کی مکمل پاسداری ہونی چاہیئے۔ اس کے بغیر ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘
حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے ہی طالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
لیکن اس اعلان کے بعد بھی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کچہری کمپلیکس کو خودکش بمباروں نے نشانہ بنایا۔
کالعدم تحریک طالبان نے ان واقعات سے اظہار لاتعلقی کیا لیکن جن غیر معروف تنظیموں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکی ہیں لیکن اب ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔
وفاقی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے واقعات پر ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی۔‘‘
’’اگر ہم پر حملہ ہوتا ہے تو یہ ریاست پر حملہ ہے، شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم اس کا جواب دیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اب بہت کم ایسے حلقے رہ گئے ہیں جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔
’’دہشت گردانہ حملے کے چار روز بعد بھی طالبان نے ان منحرف گروپوں کی مذمت نہیں کی۔ وہ (طالبان) کہتے ہیں کہ ہم نے فائربندی کی خلاف ورزی نہیں کی، یہ چھوٹے گروپ ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں۔‘‘ وزیردفاع کے بقول ’’ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے۔‘‘
مذاکراتی عمل میں فوج کی شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’’فوج کا نقطہ نظر بہت گراں قدر ہے، یہ لوگ اگلی صفوں میں ہوتے ہیں اور انھوں نے ہمارے فیصلوں کو نافذ کرنا ہے۔‘‘
ایک روزقبل ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’طالبان‘‘ سے براہ راست مذاکرات کا عمل آئندہ ہفتے شروع ہو سکتا ہے۔
تاہم اُنھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کرنے والوں میں کون سے اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
مذاکرات کے لیے حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی یہ کہہ چکے ہیں اب ایک نئی کمیٹی کی ضرورت ہے جس میں ایسے افراد شامل ہونے چاہیئں جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہوں۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ نئی کمیٹی یا اس میں شامل افراد کا فیصلہ وزیراعظم ہی کریں گے۔
اُدھر جمعہ کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کور کمانڈرز کا اجلاس جاری ہے جس میں عسکری ذرائع کے مطابق یہ کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
تاہم کور کمانڈز اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بیان کے مطابق اجلاس میں سلامتی کی مجموعی صورت پر تفصیلی غور کیا گیا۔
ملک میں اکثر سیاسی و سماجی حلقوں کے درمیان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی پر منقسم آراء پائی جاتی ہے۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کو ایک موقع دیا جانا چاہیئے جب کہ بعض کے نزدیک شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی ہی اس مسئلے کا حل ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے جمعرات کو حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹیوں کو ارکان سے ملاقات میں کہا تھا کہ ’’بطور وزیراعظم یہ میرا آئینی، دینی، قومی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے کہ میں آگ اور خون کا سلسلہ بند کر کے ملک اور عوام کو امن دوں۔ میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی اور بدامنی کی بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اور ان کے بقول امن کا قیام ناگزیر ہے۔