اسلام آباد —
طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کار پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مذاکرات میں کئی دشواریاں ہیں جس وجہ سے پیش رفت انتہائی سست ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک تعطل کے بعد اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ طالبان رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش کا اس وقت محور جلد از جلد حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی دوسری نشست کا انعقاد ہے۔
پشاور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے طالبان سے متعلق پاکستانی آئین تسلیم نا کرنے پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ضرور پاکستان کا آئین و قانون تسلیم کریں گے۔ تاہم انہوں نے اسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مقدمے سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’آئین کو کیا پرویز مشرف نے تسلیم کیا ہے؟ پرویز مشرف نے جو اس آئین کے ساتھ کیا ہے کہ کیا وہ اس کا حقدار نہیں کہ عدالت کے اندر اسے قرار واقعی سزا ملے؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو ملک سے ’’نکالا‘‘ گیا تو اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہوگی۔ انہوں نے نواز شریف انتظامیہ کو سابق صدر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے بھر پور حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی۔
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم کی جانب سے یہ کوشش ایک ایسے وقت سامنے آئی جب فوج کے سابق سربراہ نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست میں استدعا کی ہے کہ ان کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنھیں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کوشش بظاہر حکومت پر دباؤ ڈال کر مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ چھوٹ حاصل کرنا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ایاز امیر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہنا تھا۔
’’انہوں (طالبان رابطہ کاروں) نے تو اپنے لئے کوئی گنجائش نکالنی ہے۔ بالکل کوئی لنک ہی نہیں ہے مگر وہ تو یہ کہیں گے کہ جی پرویز مشرف نے بھی تو آئین توڑا تھا۔ تو کیا آپ انہیں (طالبان) مشرف کی کیٹیگری میں ڈالتے ہیں۔ طالبان تو ریاست و فوج سے برسرپیکار ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا بیان اس بات کی عکاسی ہے کہ وہ (مذہبی جماعتیں) طالبان کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور ’’جو نرم بات کرتے ہیں وہ طالبان کے حوالے سے کرتے ہیں۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے 19 غیر عسکری طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد مزید ایک درجن کو رہا کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن پھر طالبان نے فائر بندی میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے صرف سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات کیے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اب بھی مذاکرات چاہتی ہے تاہم فائر بندی کے بغیر بامعنی مذاکرات ممکن نہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک تعطل کے بعد اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ طالبان رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش کا اس وقت محور جلد از جلد حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی دوسری نشست کا انعقاد ہے۔
پشاور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے طالبان سے متعلق پاکستانی آئین تسلیم نا کرنے پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ضرور پاکستان کا آئین و قانون تسلیم کریں گے۔ تاہم انہوں نے اسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مقدمے سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’آئین کو کیا پرویز مشرف نے تسلیم کیا ہے؟ پرویز مشرف نے جو اس آئین کے ساتھ کیا ہے کہ کیا وہ اس کا حقدار نہیں کہ عدالت کے اندر اسے قرار واقعی سزا ملے؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز مشرف کو ملک سے ’’نکالا‘‘ گیا تو اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہوگی۔ انہوں نے نواز شریف انتظامیہ کو سابق صدر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے بھر پور حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی۔
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم کی جانب سے یہ کوشش ایک ایسے وقت سامنے آئی جب فوج کے سابق سربراہ نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست میں استدعا کی ہے کہ ان کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنھیں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کوشش بظاہر حکومت پر دباؤ ڈال کر مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ چھوٹ حاصل کرنا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ایاز امیر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہنا تھا۔
’’انہوں (طالبان رابطہ کاروں) نے تو اپنے لئے کوئی گنجائش نکالنی ہے۔ بالکل کوئی لنک ہی نہیں ہے مگر وہ تو یہ کہیں گے کہ جی پرویز مشرف نے بھی تو آئین توڑا تھا۔ تو کیا آپ انہیں (طالبان) مشرف کی کیٹیگری میں ڈالتے ہیں۔ طالبان تو ریاست و فوج سے برسرپیکار ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کا بیان اس بات کی عکاسی ہے کہ وہ (مذہبی جماعتیں) طالبان کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور ’’جو نرم بات کرتے ہیں وہ طالبان کے حوالے سے کرتے ہیں۔‘‘
نواز انتظامیہ کی طرف سے 19 غیر عسکری طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد مزید ایک درجن کو رہا کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن پھر طالبان نے فائر بندی میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے صرف سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات کیے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت اب بھی مذاکرات چاہتی ہے تاہم فائر بندی کے بغیر بامعنی مذاکرات ممکن نہیں۔