اسلام آباد / پشاور —
پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہوں میں اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ تو جاری ہی تھا لیکن بدھ کو اس تنظیم کے ایک اہم گروپ خان سید سجنا نے تنظیم سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان کردیا۔
اس گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ تحریک طالبان کا موجودہ انتظام ان کے بقول ایک ’منظم سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان اور مرکزی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے کہا کہ مختلف طریقوں سے موجودہ نظام کی اصلاح و اتحاد کی کوشش کی گئی مگر وہ کامیاب نا ہو سکی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ تحریک میں موجودہ نظام کے تحت ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی جا رہی ہے اور مختلف مسالک کے عقائد و نظریات کے پرچار کی وجہ سے دوسرے حلقوں کے طالبان بدظن ہوئے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مرکز کہلائے جانے والے علاقے وزیرستان کے ایک اہم محسود قبیلے کے جنگجوؤں کی طرف سے تنظیم سے علیحدگی کے اعلان کو تجزیہ کار دہشت گرد گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار بریگیدئیر ریٹائرڈ شوکت قادر کہتے ہیں طالبان میں اس تقسیم سے اُن کے درمیان لڑائی میں شدت آ سکتی ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کے باعث حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل بھی متاثر ہو گا۔
تاہم وزیراعظم معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا حکومت نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے ہیں۔
’’حکومت تو تمام طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں شامل ہے اور اس نے بات چیت کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔۔۔ جو اس طرح کی ایک جست لے کر اور اس طرح کی ایک پہل کر کے، پیش رفت کر کے مذاکرات کے عمل کو ترجیح دیتے ہوئے اور کارروائیوں سے اجتناب کرتے ہوے آگے بڑے گا ظاہر ہے کہ اس کی اس کوشش کو یقیناً سنجیدگی سے لیا جائے گا۔‘‘
علیحدہ ہونے والے گروپ کا کہنا ہے کہ ’’وہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، عوامی املاک کو نقصان اور دھماکوں کو حرام سمجھتا ہے اور اسلامی مدارس شیوخ عظام اور خانقاہوں کی عزت و احترام اور ان حضرات سے استفادہ پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
رواں ماہ ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے خان سید سجنا کو تحریک کے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ہٹانے کا حکم دیا تھا جسے ماننے سے سجنا نے انکار کر دیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو تحریک کے سربراہ کا ایک مضبوط امیدوار سمجھا جارہا تھا لیکن طالبان شوریٰ کی طرف سے سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو امیر منتخب کیے جانے کے بعد خان سید سجنا کا طالبان کے دیگر دھڑوں سے اختلاف شروع ہو گیا تھا۔
حکومت نے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی مارچ کے اواخر میں ایک ہی براہ راست نشست کے بعد سے یہ عمل فی الحال تعطل کا شکار ہے۔
طالبان کے علیحدہ ہونے والے اس دھڑے کے بیان پر تاحال تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں طالبان سے مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ اُن کی آپس کی لڑائی ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملا فضل اللہ سے قبل تحریک طالبان پاکستان کی امارت محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے پاس رہی۔
خان سید سجنا کے گروپ نے اپنے بیان میں افغانستان میں موجود ملا عمر کی سربراہی میں سرگرم طالبان تحریک ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ سے خود کو منسوب کیا۔
بیان میں خان سید سجنا گروپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تحریک طالبان پاکستان میں موجود بعض گروہ عوامی مقامات پر دھماکے کر کے فرضی ناموں سے ان کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔
رواں سال مارچ میں اسلام آباد کے کچہری کمپلیکس میں ہونے والے ایک ہلاکت خیز حملے کی ذمہ داری احرار الہند نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس واقعے میں ایک جج سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کا نام بھی پہلی بار سامنے آیا تھا۔
تحریک طالبان کے ایک ترجمان نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ نہ تو وہ اس تنظیم سے واقف ہیں اور نہ ان کا اس سے کوئی تعلق رہا ہے۔ لیکن احرار الہند کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اس کے لوگ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکے ہیں۔
اس گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ تحریک طالبان کا موجودہ انتظام ان کے بقول ایک ’منظم سازشی ٹولے کی وجہ سے نادیدہ ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان اور مرکزی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے کہا کہ مختلف طریقوں سے موجودہ نظام کی اصلاح و اتحاد کی کوشش کی گئی مگر وہ کامیاب نا ہو سکی۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ تحریک میں موجودہ نظام کے تحت ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری کی جا رہی ہے اور مختلف مسالک کے عقائد و نظریات کے پرچار کی وجہ سے دوسرے حلقوں کے طالبان بدظن ہوئے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مرکز کہلائے جانے والے علاقے وزیرستان کے ایک اہم محسود قبیلے کے جنگجوؤں کی طرف سے تنظیم سے علیحدگی کے اعلان کو تجزیہ کار دہشت گرد گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار بریگیدئیر ریٹائرڈ شوکت قادر کہتے ہیں طالبان میں اس تقسیم سے اُن کے درمیان لڑائی میں شدت آ سکتی ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کے باعث حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل بھی متاثر ہو گا۔
تاہم وزیراعظم معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا حکومت نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے ہیں۔
’’حکومت تو تمام طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں شامل ہے اور اس نے بات چیت کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔۔۔ جو اس طرح کی ایک جست لے کر اور اس طرح کی ایک پہل کر کے، پیش رفت کر کے مذاکرات کے عمل کو ترجیح دیتے ہوئے اور کارروائیوں سے اجتناب کرتے ہوے آگے بڑے گا ظاہر ہے کہ اس کی اس کوشش کو یقیناً سنجیدگی سے لیا جائے گا۔‘‘
علیحدہ ہونے والے گروپ کا کہنا ہے کہ ’’وہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، عوامی املاک کو نقصان اور دھماکوں کو حرام سمجھتا ہے اور اسلامی مدارس شیوخ عظام اور خانقاہوں کی عزت و احترام اور ان حضرات سے استفادہ پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
رواں ماہ ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے خان سید سجنا کو تحریک کے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ہٹانے کا حکم دیا تھا جسے ماننے سے سجنا نے انکار کر دیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو تحریک کے سربراہ کا ایک مضبوط امیدوار سمجھا جارہا تھا لیکن طالبان شوریٰ کی طرف سے سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو امیر منتخب کیے جانے کے بعد خان سید سجنا کا طالبان کے دیگر دھڑوں سے اختلاف شروع ہو گیا تھا۔
حکومت نے طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی مارچ کے اواخر میں ایک ہی براہ راست نشست کے بعد سے یہ عمل فی الحال تعطل کا شکار ہے۔
طالبان کے علیحدہ ہونے والے اس دھڑے کے بیان پر تاحال تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار یہ کہہ چکے ہیں طالبان سے مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ اُن کی آپس کی لڑائی ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملا فضل اللہ سے قبل تحریک طالبان پاکستان کی امارت محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے پاس رہی۔
خان سید سجنا کے گروپ نے اپنے بیان میں افغانستان میں موجود ملا عمر کی سربراہی میں سرگرم طالبان تحریک ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ سے خود کو منسوب کیا۔
بیان میں خان سید سجنا گروپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تحریک طالبان پاکستان میں موجود بعض گروہ عوامی مقامات پر دھماکے کر کے فرضی ناموں سے ان کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔
رواں سال مارچ میں اسلام آباد کے کچہری کمپلیکس میں ہونے والے ایک ہلاکت خیز حملے کی ذمہ داری احرار الہند نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس واقعے میں ایک جج سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کا نام بھی پہلی بار سامنے آیا تھا۔
تحریک طالبان کے ایک ترجمان نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ نہ تو وہ اس تنظیم سے واقف ہیں اور نہ ان کا اس سے کوئی تعلق رہا ہے۔ لیکن احرار الہند کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اس کے لوگ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکے ہیں۔