سوات کی سڑکوں اور بازاروں میں خریداروں کا ہجوم، سامان سے بھری دکانیں اور میوزک سینٹرز سے گانوں کی آوازیں سننے کے بعد یہ اندازہ لگانا خاصا مشکل ہے کہ دو سال پہلے تک پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والی یہ سرسبزو شاداب وادی فوج اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیا ن خونریز جنگ کا میدان بنی ہوئی تھی۔
2007ء اور اپریل 2009 ء کے درمیانی عرصے میں سوات میں حکومت ِ پاکستان کی عملداری ختم ہو چکی تھی کیونکہ وادی کے اکثر علاقوں اور ملحقہ دیر اور بُنیر اضلاع پر طالبان کمانڈر مولانا فضل اللہ کے جنگجوؤں کا راج تھا جواس خطے میں اپنی طرز کا ایک انتہا پسندانہ اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے مخالفین کے گلے کاٹتے اور سکولوں کو نظر آتش کرتے رہے۔
لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے طالبان جنگجو سرکٹی لاشوں کو طلوع آفتاب سے پہلے مینگورہ بازار کے معروف گرین چوک میں پھینک جاتے جس کی وجہ سے اس کا نام ”بلڈی اسکوائر“ (خونی چوک) مشہور ہو گیا۔ مقامی آبادی ان مناظر کو تاحال بھول نہیں سکی ہے اس لیے سوات سے طالبان کے بظاہر خاتمے اور جگہ جگہ فوج کی موجودگی کے باوجود لوگ بے یقینی اور خوف کا شکار ہیں۔
ریاست کی عملداری بحال ہونے کے بعد انتظامیہ نے اب گرین چوک کا نام تبدیل کر کے ایک پولیس افسر عمر فاروق کے نام سے منسوب کر دیا ہے جو طالبان کے ایک حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ شہر کے اس مصروف چوک میں گھریلو استعمال کی برقی اشیاء کی دکان کے مالک عظمت علی زمانہء طالبان میں پیش آنے والے واقعات کے ایک عینی شاہد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُس وقت کے اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
”ہم جب صُبح یہاں آتے تھے تو ایک گلی میں کبھی دوسری گلی میں دو تین سرکٹی لاشیں پڑی ہوتی تھیں۔ لیکن اب حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم بے خوف و خطر روزانہ رات کو دیر تک گھومتے ہیں، پھرتے ہیں۔ آدھی رات کو بھی آپ باہر آجائیں تو کچھ خوف نہیں اور نہ ہی کوئی دہشت گرد آپ کو نظر آئے گا۔“
سوات کے باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان شدت پسند کون تھے اور کہاں سے آئے تھے اور اب وہ کہاں چلے گئے ہیں کوئی نہیں جانتا اور اگر بعض مقامی نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا تو اس کی بڑی وجوہات خوف، غربت اور بے روزگاری تھیں۔
محمد عمران گرین چوک میں ادویات کی دکان کے مالک ہیں۔ ”ہم جانتے بھی نہیں تھے کہ یہ کون تھے۔ وہ بازاروں میں سر عام اسلحے کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے۔“
یہاں پر ایک بڑے جنرل سٹور کے مالک سردار علی کی تین منزلہ کاروباری عمارت بھی فوجی آپریشن کے دوران تباہ ہوگئی تھی لیکن اب انھوں نے اسے اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ تعمیر کر لیا ہے۔ ”ہمیں تو صحیح اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ یہ (طالبان) کون لوگ تھے۔ بہر حال پاکستان میں ہر جگہ ایسا ہوتا ہے لیکن یہاں کچھ منظم طریقے سے ہوا اس لیے حد سے بڑھ گیا۔ مقامی آبادی میں زیادہ تر وہ لوگ اُن کی حمایت کر رہے تھے جو بے روزگار تھے۔“
سوات میں طالبان کی پیش قدمی بیرونی دنیا میں پاکستان خصوصاََ فوج پر تنقید میں اضافے کا باعث بنی اور ایک موقع پر تو امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانگریس کے سامنے ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے ناقدین نے ملک کے جوہری پروگرام کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا اظہار شروع کر دیا۔
اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں تنقید میں غیر معمولی اضافے کے بعد ریاست کی عملداری بحال کرنے کے لیے فوج کو آپریشن کا حکم دیا گیا اور تین ماہ میں وادی سے عسکریت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا۔ لڑائی میں سینکڑوں جنگجو ہلاک کر دیے گئے جب کہ اس سے کہیں زیادہ کو حراست میں لے لیا گیا اور باقی پسپائی اختیار کر گئے۔
پاکستانی فوجی حکام کے بقول کمانڈر فضل اللہ افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ میں روپوش ہوگیا جہاں سے اُس کے ساتھیوں نے افغان جنگجوؤں کی مدد سے سرحدی علاقوں بشمول ضلع دیر میں حالیہ دنوں میں چیک پوسٹوں پر حملے بھی کیے ہیں۔
سوات میں فوجی آپریشن کے دوران وادی سے لاکھوں خاندان محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کی عملداری بحال ہونے کے بعد ان میں سے 80 فیصد اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں اور اس وقت سوات اور ملحقہ اضلاع میں حالات بظاہر پرامن ہو چکے ہیں۔
لیکن جن لوگوں کے کاروبار اور جائیدادوں کو لڑائی کے دوران نقصان پہنچا ان کا کہنا ہے کہ گھروں کو لوٹنے کے بعد انھوں نے جو بھی تعمیر نو کی وہ اپنی مدد آپ کے تحت کی ہے جس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ مینگورہ بازار میں دکانوں کے نئے رنگ ورغن اور عمارتوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان میں سے کئی حال ہی میں تعمیر کی گئی ہیں۔
سردار علی کہتے ہیں کہ ان کی تین منزلہ دکان ناصرف تباہ ہوگئی تھی بلکہ گودام میں رکھا سامان بھی لوٹ لیا گیا تھا لیکن اُنھوں نے اپنے سرمائے اور قرض سے ایک بار پھر اس کو اصلی شکل میں بحال کیا ہے۔ ”ہم نے مختلف جگہوں پر درخواستیں دے رکھی ہیں جب کہ حکومت کے سروے میں بھی ہم نے اپنا اندراج کرایا۔ لیکن وعدوں کے باوجود اب تک ہمیں کسی قسم کی مالی امداد نہیں دی گئی ہے۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ سب کام کیا ہے۔“
متاثرین کا کہنا ہے کہ علاقے کی دگر گوں اقتصادی اور معاشی صورت حال میں رہی سہی کسر گزشتہ سال مون سون بارشوں سے اُٹھنے والے تباہ کن سیلاب نے پوری کر دی۔ مقامی باشندوں کی اکثریت کی شکایت ہے کہ جب سے بے دخل خاندان سوات واپس آئے ہیں وہ اپنے اُن منتخب عوامی نمائندوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں جنھوں نے اُنھیں پہلے طالبان کے اور اب حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور متاثرہ خاندانوں سے کیے گئے وعدے تاحال پورے نہیں کیے ہیں۔
محمد عمران کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی دکان کی تعمیر نو قرض لے کر کی ہے۔ ”حکومت کو چاہیئے کہ یہاں پر لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرے۔ ابھی حکومت کی طرف سے ایک روپیہ بھی ہمیں نہیں ملا۔ لوگ مقروض ہیں اور کاروبار تباہ ہیں۔ ان حالات میں اپنے قرضے ختم کرنے کے لیے لوگوں میں منفی رجحانات اور کوئی دوسرا راستہ اپنانے کا امکان ہے۔“
عظمت علی اس صورت حال پر خاصے نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ منتخب عوامی نمائندوں کو اخبارات اور ٹیلی ویژن پر تو وہ ضرور دیکھتے ہیں لیکن ان میں سے ابھی تک کسی نے بھی آ کر لوگوں کے مسائل حل کرنے اور ان سے کیے گے تعمیر نو کے وعدے پورے کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ”انشااللہ اگر یہ نمائندے اگلی دفعہ ہمارے پاس ووٹ لینے کے لیے آئے تو ہم ان کی تواضع گندے ٹماٹروں سے کریں گے کیونکہ اُنھوں نے تو ہمیں طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔“
علاقے میں عوام کے روزگار کا زیادہ تر دارومدار سیاحت پر ہے۔ طالبان کی آمد اور بعدازاں فوجی آپریشن کے باعث سیاحوں نے اس علاقے کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اب فوج کے تعاون سے مقامی انتظامیہ سوات میں مختلف میلوں اور سیمیناروں کا انعقاد کر رہی ہے تاکہ ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں یہ پیغام پہنچایا جاسکے کے قدرتی حسن سے مالا مال یہ وادی ایک بار پھر سیاحوں کی منتظر ہے۔
مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ سوات میں امن و استحکام کی حقیقت اُس وقت ظاہر ہو گی جب علاقے کا انتظام مکمل طور پر فوج سے سول انتظامیہ کو منتقل کیا جائے گا۔ تاحال پولیس پر اُن کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا ہے اور اکثر لوگ فوج کی یہاں مستقل موجودگی کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں صوبائی حکومت نے اگر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینے میں مزید تاخیر کی تو سوات میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری فوج سے سول انتظامیہ کو منتقل کرنے کا خواب جلد شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین سوات میں سیاسی حکومت کے کردار پر تنقید سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کے بقول عوامی نمائندوں نے سواتی عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ”وہ عوامی نمائندے جن کی طرف (لوگ) اشارہ کر رہے ہیں اُن میں سے کسی کا بھائی شہید ہوا ہے اور کسی کے دو دو بھتیجے شہید ہو ئے ہیں کسی کے گھر والے شہید ہوئے ہیں۔ ہمارا ایسا کوئی منتخب نمائندہ وہاں پر نہیں ہے جس کے گھر پر حملے نہیں ہوئے، اُنھیں شہید نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ میدان میں موجود بھی ہیں۔“
اُنھوں نے اعتراف کیا کہ عوامی نمائندے سوات میں پہلے جس آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے اور لوگوں سے ملتے ملاتے تھے سلامتی کے خدشات کے باعث اب وہ محتاط ہو گئے ہیں لیکن لوگوں سے اُن کا رابطہ برقرار ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سوات میں سب سے بڑا مسئلہ امن کا تھا جو اب حل ہوگیا ہے اور مالاکنڈ میں پہلے کی طرح کاروبار زندگی بحال ہو چکا ہے، اس لیے حکومت اب غربت، تعلیم اور بے روزگاری سمیت تمام عوامی مسائل پر پوری توجہ دے سکے گی۔ ” ایسا نہیں ہے کہ یکدم سب کچھ ہو جائے گا ۔ہمارے پاس الہ دین کا چراغ بھی نہیں اور امداد دینے والے ملکوں نے سوات کی تعمیر نو کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے بھی اس طرح پورے نہیں کیے۔“
وادی میں سرگرم عمل غیر سرکاری تنظیموں کے عہدے داورں اور مقامی ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ سوات میں سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں میں تیزی، ان کے معیار کو بہتر کرنے اور اسکولوں میں بچوں کی حاضری کو بہتر بنانے کے لیے سول انتظامیہ کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں میں اپنے حالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی مستقبل میں عسکریت پسندوں کے عزائم کی حوصلہ شکنی میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
سوات میں اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی واپسی کا اب کوئی امکان نہیں ہے لیکن انھیں تشویش ہے کہ ملحقہ ضلع اپر دیر میں سرحدی چوکیوں اور دیہاتوں پر افغانستان کے مشرقی سرحدی صوبوں میں موجود ٹھکانوں کو استعمال کر کے پاکستانی طالبان اور اُن کے افغان ساتھیوں نے حالیہ دنوں میں حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے کیونکہ سوات کی سرحد دیر سے ملتی ہے۔