مغربی ممالک وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو ”ناکافی“ قرار دیتے آئے ہیں لیکن پاکستان کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ اس حوالے سے ہرممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں کی ہزاروں ہلاکتیں اس کا ایک واضح ثبوت ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی لڑائی میں پاکستان سے متعلق تحفظات دور کرنے کی ایک کوشش میں سوات میں فوج کے زیر انتظام ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا بنیادی مقصد انتہا پسندی کے سدباب اور سخت گیر رجحانات رکھنے والے افراد کی اصلاح کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کو اجاگر کرنا تھا۔
بدھ کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں تین روزہ سیمینار کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ اُن کا ملک خلوص نیت سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’القاعدہ اور اس کی معاون تنظیموں کے خلاف لڑائی میں پاکستان کا عزم کلی اور غیر متزلزل ہے۔‘‘
اُن کے بقول پاکستان ’’تمام دہشت گردوں‘‘ کے خلاف بھرپور کارروائی پر یقین رکھتا ہے۔
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ بری فوج ملک میں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی معاونت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہی ہے۔
لیکن اْنھوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ صرف فوجی کارروائی دہشت گردی کا حل نہیں البتہ یہ ایک ساز گار ماحول پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ”(دہشت گردی کے) اس ناسور سے قومی سلامتی کے تناظر میں نمٹنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ایک ایسی جامع حکمت عملی ضروری ہے جس میں ریاست کے تمام عناصر کی بھرپور شمولیت ہو۔“
فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سوات میں انتہا پسندانہ نظریات کی حوصلہ شکنی کے لیے جاری منصوبے ملک کے دوسرے علاقوں کے لیے بھی قابل تقلید ہیں اور ان سے پائیدار امن کے قیام میں مدد ملے گی۔
”انتہا پسند نظریات اپنانے والے لوگوں میں تبدیلی لانے کے سلسلے میں ہماری کوششیں نمایاں حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ممکن ہے۔“
جنرل کیانی نے سیمینار کے شرکاء کو بتایا کہ پاکستانی فوج نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے بنائے گئے اداروں میں انتہا پسند رجحانات رکھنے والے نوجوانوں، بعض زیر حراست مشتبہ شدت پسندوں، اور اْن کے اہل خانہ کے درمیان معتدل سوچ کو فروغ دینے کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں۔
سوات میں جاری ان منصوبوں کا بنیادی مقصد فوجی کارروائی کے دوران حراست میں لیے گئے مشتبہ شدت پسندوں کی اصلاح کرکے اُنھیں دوبارہ معاشرے کا فعال رکن بنانا ہے۔
فوج کے سربراہ نے دانشور اور پالیسی ساز طبقوں پر زور دیا کہ وہ معاشرے میں اعتدال پسندی کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کریں۔
جنرل کیانی کے مطابق کوئی ایک ریاستی ادارہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے انفرادی طور پرنمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی سیمینار کی اختتامی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں اْن کا کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود سیاسی قیادت، پارلیمان اور دیگر قومی ادارے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکجا ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ مشترکہ کوششوں سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔
اپنی نوعیت کے اس منفرد سیمینار میں مقامی اور بین الاقوامی ماہرین نے بھی شرکت کی اور سوات میں انتہا پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لیے جاری اقدامات کو مزید موثر بنانے کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔
سیمینار کے شرکاء کی طرف سے پڑھے گئے مکالموں میں دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی کے سلسلے میں عدالتی نظام کو مضبوط بنانے، تعلیمی سہولتوں کے فروغ، مجموعی طور پر پولیس کی استعداد میں اضافے اور ترقیاتی منصوبوں پر کام تیز کرنے پر زور دیا گیا۔
مندوبین کا کہنا تھا کہ انتہاپسندی کے خلاف ایک قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
سمینار میں تعلیم کے نظام پر زیادہ توجہ دینے پر بھی بات کی گئی اور شرکاء نے سرکاری اور نجی اسکولوں میں معیار تعلیم میں فرق کے علاوہ اسکولوں اور مدرسوں میں تدریس کے عمل میں فرق مٹانے پر بھی زور دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ امن و امان کے قیام کے لیے بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ اس موقع پر گواہوں، ججوں اور سکیورٹی کے عملے کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کی اہمیت پر بھی بات کی گئی۔
شرکاء کے مطابق انتہا پسند قید خانوں میں بھی اپنے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں جس کے سدباب کے لیے جیل اصلاحات ضروری ہیں۔
سیمینار میں فیصلہ کیا گیا کہ ان تمام تجاویز کو دستاویز کی شکل میں متعلقہ اداروں کو پیش کیا جائے گا تاکہ قومی سلامتی کی پالیسی کی تشکیل میں ان سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔
2009ء کے اوائل تک پاکستانی طالبان نے سوات سمیت اس سے ملحقہ بعض اضلاع میں اپنی متوازی حکومت قائم کر لی تھی جس کے بعد اتفاق رائے سے ایک بھر پور فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
فوج نے تین ماہ تک جاری رہنے والے انسداد دہشت گردی کے اس سب سے بڑے آپریشن کے ذریعے ان علاقوں میں حکومت کی عمل داری بحال کی۔ اس آپریشن میں دو سو سے زائد فوجی افسران اور اہلکار ہلاک جب کہ ساڑھے سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ سوات میں کشیدگی کے باعث 25 لاکھ افراد نے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کی تاہم حالات بہتر ہونے پر ان میں سے بیشتر اپنے علاقوں کو لوٹ چکے ہیں۔