پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی مبینہ بلا اشتعال فائرنگ پر احتجاج کیا ہے۔
وزارت خارجہ سے پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا اور سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کر کے 10 اور 12 جون کو چیریکوٹ اور ہاٹ اسپرنگ سیکٹرز میں بھارت کی مبینہ ’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ پر احتجاج کیا۔
بیان کے مطابق چیریکوٹ سیکٹر میں 10 جون کو بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 70 سالہ شہری شبیر خان ہلاک ہو گیا تھا جب کہ 12 جون کو ہاٹ اسپرنگ سیکٹر میں 18 سالہ وقار یونس اور 19 سالہ اسد علی مارے گئے تھے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق لائن آف کنٹرول پر ہاٹ اسپرنگ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے دو خواتین سمیت تین افراد زخمی بھی ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت فعل اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری ہے۔
پاکستانی عہدیدار کی طرف سے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر پر زور دیا گیا کہ بھارت 2003ء میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے کا احترام کرتے ہوئے حالیہ اور اس سے قبل پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کرے۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے اس احتجاج پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستانی اور بھارتی سرحدی فورسز کے درمیان ’ایل او سی‘ پر فائرنگ و گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔
دونوں ہی ملک فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ان جھڑپوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور دونوں ہی جانب نہ صرف سکیورٹی فورسز کے اہلکار بلکہ عام شہری بھی مارے گئے ہیں جب کہ سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنا پڑی ہے۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا تھا کہ صرف پاکستانی کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب آباد افراد کی تعداد پانچ لاکھ 10 ہزار ہے اور فائرنگ و گولہ باری کی صورت میں اُن علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی روکنے کے لیے حکومت نے ’’کمیونٹی بنکر‘‘ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔