پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی ضلع گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی ایکعدالت نے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں تین مجرموں کو سزائے موتسنائی ہے۔
عدالت کی جج بشریٰ زمان نے پیر کو سنائے جانے والےفیصلے میں انجم ناز سندھو، جاوید ناز اور جعفر علی کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دیا۔
انجم اور جاوید کا تعلق مسیحی برادری سے ہے جبکہ جعفر علی مسلمان ہے۔
ضلع گوجرانوالہ کے ایک سرکاری وکیل نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال مئی میں انجم ناز نے جاوید ناز اور جعفر علی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس کو درخواست دی تھی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ جاوید اور جعفر علی بھتہ وصول کرنے کے لیے اسے تنگ کر رہے ہیں۔
سرکاری وکیل کے مطابق پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ جاوید ناز نے انجم ناز کی ایک گفتگو ریکارڈ کرلی تھی جو میبنہ طور پر توہین آمیز تھی اور اس نے اسے جعفرعلی کے فون پر بھی منتقل کیا۔
مبینہ طور اس توہین آمیز گفتگو کی بنا پر جاوید ناز اور جعفر علی نے انجم ناز کو دھمکانا شروع کر دیا اور اسی دوران انھوں نے انجم سے 20 ہزار روپے بھی لیے جب کہ مزید رقم کا بھی تقاضا کرتے رہے۔
استغاثہ کے مطابق تکنیکی اور فرانزک شہادت میں یہ بات سامنے آئی کہ توہین آمیز گفتگو انجم ناز کی آواز میں تھی جبکہ جاوید ناز اور جعفر علی نے انجم ناز کو بلیک میل کرنے کے لیے اسی کی گفتگو کو اپنے موبائل فون میں بھی محفوظ کیا۔
تینوں مجرم اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور ایسے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں ملزمان کے قانون کی گرفت میں جانے سے پہلے ہی مشتعل افراد نے اُنھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا ہو، جب کہ کئی بار ایسے مقدمات میں ملزموں کو اپنے دفاع میں اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق غیر سرکاری ادارے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئر پرسن کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حساس مقدمات میں ملوث افراد کو اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کی سہولت ہونی چاہیئے۔
’’ میں یہ کہوں گا کہ کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس بھی جرم میں لوگ جیل جائیں ان کی حفاظت ہونی چاہیئے۔۔۔۔ توہین مذہب کے مقدمات میں ملوث افراد کو خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات کے کچھ ملزموں کو جیل کے اندر مار دیا گیا تھا ، تو (اس لیے) باقی قیدیوں سے ان (کی جان)کو خطرہ ہوتا ہے ۔اس لیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے ان کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظمیوں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ اکثر لوگ اپنے ذاتی عناد کے پیش نظر اس قانون کا دوسروں کے خلاف غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں لہذا اس بارے میں قانون میں ترمیم پر غور کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس ضمن میں تاحال کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے تحت متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج ہیں جبکہ کئی ایک مقدمات میں ذیلی عدالتوں کی طرف سے مجرموں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے تاہم اب تک کسی بھی مجرم کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ ان کو دی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔