رسائی کے لنکس

پاکستان سینیٹ: 37نشستوں پر انتخابات مکمل، حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے مزید 7 ارکان درکار


پاکستان کی سینیٹ، ایوان بالا کا اندرونی منظر۔ فائل فوٹو
پاکستان کی سینیٹ، ایوان بالا کا اندرونی منظر۔ فائل فوٹو
  • سینیٹ کی 48 خالی نشستوں میں سے 19 پر الیکشن ہوئے ہیں، کیونکہ خیبرپختونخواہ کی 11 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہو گئے ہیں جب کہ باقی ماندہ 18 نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔
  • 19 نشتوں میں سے 11 پر پیپلز پارٹی جب کہ 6 پر مسلم لیگ نون کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
  • اس وقت سینیٹ میں سب سے زیادہ سینیٹرز پیپلز پارٹی کے ہیں جن کی تعداد 24 ہے۔
  • خیبرپختونخوا میں انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی اکثریت ہو سکتی ہے۔

سینیٹ کی 37 نشستوں پر انتخابات کے بعد 85 اراکین میں سے حکمران اتحاد میں تمام اراکین کی تعداد 57 ہو گئی ہے۔ جس میں پیپلزپارٹی کے 24 ،مسلم لیگ ن کے 19، ایم کیو ایم 3، اے این پی کے 3، باپ کے 4 اور چار آزاد سینیٹرز شامل ہیں۔

حکمران اتحاد کو سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے سینیٹ میں 64 ارکین چاہئیں۔ حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے مزید 7 اراکین درکار ہیں جو انہیں خیبر پختونخوا سے ملنا مشکل ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے کے پی کے سے چار نشستیں جیتنے کے بعد بھی مزید 3 اراکین کی ضرورت ہو گی جو انہیں جے یو آئی کو ملا کر پورے کرنے ہوں گے یا پھر دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملانا ہوگا۔

سینیٹ میں اس وقت اپوزیشن میں شامل پارٹیوں کے اراکین کی تعداد 28 ہے جس میں پی ٹی آئی کے 20،جے یو آئی کے 5، نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل ایک، ایک جب کہ پرویز الٰہی گروپ کے کامل علی آغا ق لیگ کے سینیٹر شامل ہیں۔

سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں پر انتخابات 2 اپریل کو ہونے تھے جس کے لیے الیکشن کمیشن نے 14 مارچ کو شیڈیول جاری کیا تھا۔ شیڈیول کے مطابق سندھ اور پنجاب کی 12، 12 جب کہ کے پی کے اور بلوچستان کی 11، 11 نشستوں، اسلام آباد کی دو نشستوں پر انتخابات ہونے تھے۔

2 اپریل سے پیلے ہی صوبہ بلوچستان کی ساری یعنی 11 نشستوں پر امیدواران بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے تھے جس کے باعث بلوچستان اسمبلی میں 2 اپریل کو سینیٹ انتخابات کے لیے کوئی پولنگ نہیں ہوئی۔

اس طرح 2 اپریل سے قبل ہی پنجاب کی 12 خالی نشستوں میں سے 7 جنرل نشستوں پر امیدواران بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے تھے۔

11 مارچ کو سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں میں سے 18 نشستوں پر امیدواران کے بلا مقابلہ کامیاب ہونے کے بعد مجموعی طور پر باقی رہ جانے والی 30 نشستوں پر انتخابات کے لیے پولنگ 2 اپریل کو ہونی تھی۔ صوبہ کے پی کے کی 11 نشستوں پر انتخابات 2 اپریل کو یعنی پولنگ والے دن ہی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی

کے پی کے میں 11 نشستوں پر انتخابات مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے اراکین سے حلف نہ لینے کے باعث ملتوی ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے صوبہ کے پی کے میں سینیٹ انتخابات ملتوی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اب وہاں انتخابات کرانے کا شیڈول مخصوص نشستوں پر کامیاب اراکین کے حلف کے بعد جاری کیا جائے گا۔

کے پی کے کی 11 نشستوں کے علاوہ 2 اپریل کو باقی 19 نشستوں پر انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا ہے، جن میں پنجاب کی 5، اسلام آباد کی 2 اور سندھ کی 12 نشستیں شامل ہیں۔

پنجاب میں مسلم لیگ ن کی نمایاں کامیابی

صوبہ پنجاب میں خواتین کی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ ن کی امیدوار انوشہ رحمان اور بشرہ انجم کامیاب ہو گئی ہیں۔ جب کے پنجاب کے دو ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر بھی مسلم لیگ نواز کےدو وفاقی وزرا وزیر خزانہ اورنگزیب اور مصدق ملک کامیاب ہوئے ہیں۔ پنجاب کی ایک اقلیتی نشست پر بھی مسلم لیگ ن کےخلیل طاہر سندھو کامیاب ہو گئے ہیں۔

سندھ کی 12 میں 10 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لیں

صوبہ سندھ کی 12 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے 10، ایم کیو ایم نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی اور ایک نشست پر آزاد امیدوار فیصل واوڈا، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی مدد سے سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔

سندھ سے پیپلزپارٹی کے منتخب ہونے والے سینیٹرز میں جنرل نشست پر اشرف علی جتوئی، دوست علی جیسر، سید کاظم علی شاہ، مسرور احمد، ندیم بھٹو شامل ہیں۔ جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے اپنے پرانی ورکر سرفراز راجڑ کو ریٹائر کروا کر آزاد امیدوار فیصل واوڈا کو بھی جنرل نشست پر منتخب کرایا گیا ہے۔ جب کہ جنرل نشست پر ایم کیو ایم کے عامر ولی الدین چشتی کامیاب ہوئے ہیں۔

صوبہ سندھ کی خواتیں کی دو نشستوں پر پیپلزپارٹی کی روبینہ قائم خانی اور قرت العین مری کامیاب ہو گئی ہیں جب کے ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر پیپلزپارٹی کے ضمیر گھمرو اور سرمد علی کامیاب ہوئے ہیں۔

اسلام آباد کی دو نشستیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو مل گئیں

اسلام آباد کے لیے دو نشستوں پر مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار اور پیپلزپارٹی کے رانا محمود الحسن کامیاب ہو گئے ہیں۔

دو اپریل کے انتخابات میں سینیٹ کی خالی 48 نشستوں میں سے 37 نشستوں پر انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد سینیٹ کے کل 96 اراکین میں سے اس وقت ان کی تعداد 85 ہو گئی ہے جس میں نو منتخب 37 سینیٹرز اور پہلے سے موجود 48 سینیٹرز شامل ہیں۔

نو منتخب سینیٹ اراکین سمیت موجود 85 اراکین میں اس وقت سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کے سینیٹرر ہیں جن کی تعداد اب 24 ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سندھ سے 10 نو منتخب سینیٹرز سمیت سندھ کے کل 23 سینیٹرز میں سے 18 کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔

صوبہ سندھ کے 18 سینیٹرز کے علاوہ پیپلزپارٹی کے اسلام آباد سے دو، اور بلوچستان سے چار سینیٹرز ہیں۔ پیپلزپارٹی کے صوبہ پنجاب کے 23 سینیٹرز میں سے ایک بھی سینیٹر نہیں ہے۔

پی ٹی آئی سینیٹ میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے

اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے 20 سینیٹرز موجود ہیں جن میں پنجاب سے نو منتخب راجہ ناصر عباس اور حامد خان جب کہ اسلام آباد سے ایک، بلوچستان سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے عبدالقادر اور سندھ سے ایک سینیٹر شامل ہیں۔ جب کہ صوبہ کے پی کے کے اس وقت موجود 12 سینیٹرز میں پی ٹی آئی کے 10 سینیٹر ہیں۔ جس سے اس وقت پی ٹی آئی کے موجود سینیٹرز کی تعداد 20 بنتی ہے۔

کے پے کے میں 11 نشستوں پر انتخابات میں پی ٹی آئی کے کم سے کم سات سینیٹرز کا منتخب ہونا یقینی ہے۔ اگر جے یو آئی اور موجود وفاق میں حکمران اتحاد اختلاف کا شکار ہوا تو پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا سے سات سے بھی زیادہ نشستیں مل سکتی ہیں۔ اس طرح کے پی کے، کے 11 نشستوں پر انتخابات کے بعد پی ٹی آئی سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی۔

نو منتخب سینیٹرز کو ملا کر مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کی تعداد 19 ہو گئی ہے جس میں اسلام آباد سے ایک، بلوچستان سے چار اور پنجاب سے 14 سینیٹرز شامل ہیں۔

آزاد سینیٹرز کی تعداد چار ہے

سینیٹ میں نو منتخب سینیٹرز کو ملا کر جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، باپ کے 4، ق لیگ، نیشنل پارٹی اور بی این پی کے ایک ایک، جب کے آزاد اراکین کی تعداد 4 ہو گئی ہے۔ جس میں فیصل واوڈا، انوارالحق کاکڑ، محسن نقوی اور بلوچستان کی نسیمہ احسان شامل ہے۔

سینیٹ کی خالی 48 نشستوں میں سے 37 پر انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد نو منتخب سینٹرز کی حلف برداری اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لیے اجلاس بلانے پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔

اس وقت سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین موجود نہ ہونے کے باعث صدر آصف زرداری نے سینیٹ کے پہلے اجلاس کی صدارت اور حلف لینے کے لیے نو منتخب اسحاق ڈار کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کر دیا ہے۔

ذرایع نے بتایا ہے کہ صدر آصف زرداری نے اس کی منظوری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دی ہے۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایسے سینیٹر کو حلف لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کرنے کی ذمہ داری دی جا رہی ہے جسے خود بھی حلف لینا ہے۔

اس پر بھی غور کیا جا ر ہا ہے کہ سینیٹ کا پہلا اجلاس کب بلایا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ سینیٹ کا پہلا اجلاس 8 اپریل کو منعقد ہو سکتا ہے۔ 8 اپریل کو سینیٹ اجلاس نہ ہونے کی صورت میں یہ اجلاس عید کے بعد 15 اپریل کو ہو سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG