پاکستان کی وزارتِ قانون نے سزائے موت کے منتظر مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر دی ہے۔
بدھ کو دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن کو فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع دیا ہے۔
وفاقی وازرتِ قانون کے مطابق، درخواست فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حال ہی میں جاری کیے گئے آرڈیننس کے تحت خود حکومت نے دائر کی ہے جس میں عدالت سے کمانڈر جادھو کی نظر ثانی درخواست کے لیے نمائندہ مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 20 مئی 2020 کو پاکستان میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس کے تحت کلبھوشن جادھو کو 60 روز کے اندر اپنی سزا کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق کلبھوشن نے سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو دائر کردہ حکومتی درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی مفاد میں عدالت کلبھوشن جادھو کی جانب سے قانونی نمائندہ مقرر کرے اور عدالت حکم دے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔
پاکستان کی فوجی عدالت نے جاسوسی، دہشت گردی اور تخریب کاری کے الزامات کے تحت اپریل 2017 میں کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔
وزارت قانون نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ بھارتی کمانڈر کلبھوشن جادھو نے اپنی سزا سے متعلق نظر ثانی اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ بھارت نے بھی پاکستان کی جانب سے نظر ثانی اپیل کی سہولت کا فائدہ اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
وزارتِ قانون نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک وکیل مقرر کرے جو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق کلبھوشن کو فوجی عدالت سے سنائی جانے والی سزا کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اور فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی پیروی کرے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کلبھوشن کے انکار کے بعد اس کے علاوہ اس کے پاس آزاد ذرائع موجود نہیں کہ خود سے وکیل کر لے۔ درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل برانچ، پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) اور وزارتِ دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت 2016 میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ کلھبوشن بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہے۔ لیکن بھارت اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ کلبھوشن بحریہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں جن کا ’را‘ سے کوئی تعلق نہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے 17 جولائی 2019 میں اپنا فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان، کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی اور سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق دے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے پر اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کی تھی جس پر وزارتِ قانون کا موقف تھا کہ عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرڈیننس کا اجرا ناگزیر تھا۔
حکومت کا موقف تھا کہ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا لہذٰا صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اُن کے بقول عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ کلبھوشن جادھو کو اپیل کا حق دیا جائے، اس مقصد کے لیے پاکستان نے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی۔
احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ کلبھوشن اور بھارت اب تک اپیل کا حق استعمال کرنے سے گریز کررہے ہیں لہذا وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اب عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کسی بھی وکیل کو اس سلسلے میں کلبھوشن کی وکالت کا حکم دے۔
اُن کے بقول اگر کلبھوشن جادھو خود اپیل کا حق استعمال نہیں کرتے اور کیس میں دلچسپی نہیں لیتے تو ان کے لیے مشکلات ویسی ہی رہیں گی۔
احمر بلال صوفی نے کہا کہ کلبھوشن جادھو کے لیے کوئی بھی بھارتی وکیل کیس نہیں لڑ سکتا، اس کے لیے پاکستانی قانون کے مطابق پاکستانی وکیل کو ہی مقدمہ لڑنا ہو گا۔