پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس معاملے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نہ تو تحقیقاتی ادارہ ہے اور نہ ہی ٹرائل کورٹ۔
وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ پر غیر قانونی طور پر رقم بیرون ملک منتقل کر کے وہاں اثاثے بنانے کے الزام میں دلائل دیتے ہوئے منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کا 2000ء میں دیا گیا اعترافی بیان پڑھ کر سنایا جس میں انھوں نے غیرقانونی طور پر رقم بیرون ملک منتقل کرنے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا تھا۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایف آئی اے کی رپورٹ سے شریف خاندان کی طرف سے رقم منتقل کرنے کا سراغ ملتا ہے۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اعترافی بیان کا جائزہ احتساب عدالت لے سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جن دستاویزات کی روشنی میں یہ رپورٹ تیار ہوئی وہ بینچ کے سامنے نہیں۔
بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پولیس افسر کی رپورٹ اس کی رائے ہوتی ہے جس کو ٹرائل کورٹ میں شواہد کے ساتھ ثابت کیا جاتا ہے اور بغیر ثبوت کے اس رائے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق بہت اچھی ہے لیکن "اس کا کیا فائدہ؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ پہلے تحقیق کرے اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ کرے۔"
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نہ ٹرائل کورٹ ہے اور تحقیقاتی ادارہ، یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے وکیل نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ دنیا کی کس عدالت نے پاناما لیکس کی بنیاد پر کسی کے خلاف فیصلہ دیا؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت عظمیٰ اس بارے میں فیصلہ دے کر ابتدا کرے۔
بینچ کا کہنا تھا کہ گو کہ نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں لیکن جب تک وہ عدالت کو مطمیئن نہیں کرتے وہ روسٹرم نہیں چھوڑ سکتے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کر رہی ہے اور نعیم بخاری کو یہ ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف نے کیا کوئی اقدام کیا جس سے وہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے۔
معاملے کی سماعت اب بدھ کی صبح ہوگی۔