پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما پیپرز میں غیر ملکی اثاثوں کے انکشافات کی بنیاد پر دائر درخواستوں کی سماعت بدھ کو سپریم کورٹ میں دوبارہ شروع ہوئی۔
عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت اب روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بدھ کو نئے تشکیل شدہ پانچ رکنی بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جب سماعت شروع کی تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ اور قوم سے خطاب میں قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس بابت الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں کچھ درج ہے، لہذا وہ دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے اور عدالت انھیں منصب کے لیے نا اہل قرار دے۔
بینچ نے نعیم بخاری سے کہا کہ وہ لندن میں فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم کے ذرائع کو واضح کریں کیونکہ اس بابت عدالت کے سامنے تین مختلف ذرائع پیش کیے گئے ہیں اور پی ٹی آئی کسی ایک منی ٹریل کا ذریعہ کو ثابت کرے۔
بینچ نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ وہ یہ بھی ثابت کریں کہ آف شور کمپنیاں 2006ء سے پہلے شریف خاندان کی ملکیت تھیں۔
بینچ میں شامل ججز نے وزیراعظم کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں تحریری طور پر عدالت میں تفصیلات فراہم کریں کہ نواز شریف کب کب کن عوامی عہدوں پر فائز رہے اور 1980ء سے 1997ء تک وہ کیا کرتے رہے کیونکہ اس میں اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ آیا وزیراعظم نے اپنے عوامی عہدوں کا غلط استعمال تو نہیں کیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فریقین کی طرف سے عدالتی احاطے میں پریس کانفرنس کرنے اور عدالتی آبزرویشنز پر تبصرے کرنے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔
روزانہ کی بنیاد پر سماعت کو پی ٹی آئی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) دونوں ہی نے خوش آئند قرار دیا لیکن سماعت کے بعد فریقین کی جانب سے ایک بار پھر ایک دوسرے پر الزامات اور سبقت لے جانے کے بیانات سامنے آئے۔
پی ٹی آئی کے ایک مرکزی راہنما فواد چودھری نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت سے جلد ہی ان کی جماعت کا موقف ثابت ہو جائے اور وزیراعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا۔
"روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی تو معاملے اگلے 15، 20 دنوں یا مہینے میں نمٹ جائے گا وزیراعظم نا اہل ہوں گے اور عدالت پاکستان کے آئین کو مقدم کرے گی اور اس کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نئی قیادت منتخب کرے۔"
دوسری طرف حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چودھری نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام الزامات کو غلط ثابت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سرخرو ہوگی۔
"ہم اس (روزانہ سماعت کی) بات پر مطمیئن ہیں۔۔۔ہم پورے عزم کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ اس فورم پر موجود ہیں، وہ تمام حقائق اور ثبوت جس کی پی ٹی آئی روزانہ کرتی ہے وہ لے کر آئیں گے اور پاکستان کی سپریم کورٹ کو بھی اور عوام کو بھی مطمیئن کریں گے۔"
سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عدالت کو شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے اور اب تک کی صورتحال کے تناظر میں یہ معاملہ جلد نمٹتا دکھائی نہیں دیتا۔
"اس بات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ چیزیں کتنی جلدی عدالت کے سامنے واضح ہوتی ہیں عدالت کو تو بہرحال کسی نتیجے پر پہنچنا ہے اور اس کے پہلے فریقین کی طرف سے کوئی ثبوت ملے گا جب ہی عدالت کوئی نتیجہ اخذ کرے گی۔۔۔یہ بہت جلدی ہونے والا کام نہیں لگتا۔"
حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی مبینہ غیر ملکی جائیداد سے متعلق مزید دستاویزات عدالت میں جمع کروائیں جب کہ شریف خاندان کی طرف سے اپنے وکلا کی ٹیم کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس معاملے میں اپنے وکیل سلمان اسلم بٹ کی جگہ مخدوم علی خان کو مقرر کیا ہے جب کہ مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کی وکالت اب شاہد حامد کریں گے۔ سلمان اکرم راجہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی طرف سے پیش ہوں گے۔
گزشتہ سال اپریل میں پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی فہرست میں غیر ملکی اثاثے اور آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کے ناموں میں وزیراعظم کے تینوں بچوں کے نام بھی تھے جس پر حزب مخالف خصوصاً پاکستان تحریک انصاف وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور ایک وکیل طارق اسد نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔