انسانی حقوق کی علم بردار تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے انڈونیشیا میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقع میں کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ برادری کے کم از کم 55 نوجوانوں کی ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ہفتہ کو طوفان کی زد میں آ کر اُلٹنے والی کشتی میں 170 پاکستانیوں سمیت تقریباً 250 افراد سوار تھے۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ یہ سانحہ حکومت پاکستان کی فوری توجہ کا متقاضی ہے، اور حکام کو اُن وجوہات کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے جن کے باعث ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
’’ہزارہ کمیونٹی کے نوجوانوں نے جس طرح سنگین خطرہ مول لیتے ہوئے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اِس سے بلوچستان میں اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘
بیان کے مطابق دیگر پاکستانی مسافروں کا تعلق بھی بلوچستان سے ہی تھا اور اکثریت بیروزگار نوجوانوں کی تھی جو اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش میں ملک چھوڑ رہے تھے۔ جب کہ چند تاجر صوبے، بالخصوص کوئٹہ، میں اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں یہاں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی مزید چھان بین بھی کرے گی۔
اس سانحہ میں ڈوبنے والوں اور تاحال لاپتہ افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہوسکی، جس کے باعث میں پاکستان میں متاثرہ خاندانوں کو ناقابل بیان کرب کا سامنا ہے۔
تنظیم نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مرنے اور زندہ بچنے والے مسافروں سے متعلق معلومات کے حصول میں اُن کے اہل خانہ کی مدد کی جائے۔
’’اِس حقیقت سے قطع نظر کہ انڈونیشیا کے پانیوں میں یہ نوجوان کیسے پہنچے حکومت کو فی الفور متاثرہ خاندانوں کو اپنے پیاروں سے متعلق معلومات کی فراہمی ممکن بنانی چاہیئے، زندہ بچ جانے والوں کی مدد کرنی چاہیئے اور برآمد شدہ لعشوں کو وطن واپس لانے کا انتظام کرنا چاہیئے۔‘‘