پاکستان کے لیے ایک اور بڑی مشکل کا آغاز ہوا ہے اور ریکوڈک کیس میں ٹیتھیان کاپر کمپنی کی درخواست پر برٹش ورجن آئی لینڈ ہائی کورٹ کا حکم جاری ہونے کے بعد ٹیتھیان کاپر کمپنی نے پاکستانی اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
اس سے قبل پاکستان کی درخواست پر ہرجانے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا، پاکستان کی جانب سے حکم امتناع کی شرائط پوری کرنے میں ناکامی کے بعد عدالت نے ٹیتھیان کمپنی کی درخواست پر دوسرا حکم جاری کیا۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس سے جاری بیان کے مطابق ٹیتھیان کاپر کمپنی نے پاکستانی اثاثے منجمند کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی جانب سے پاکستانی اثاثے منجمد کرنے کی درخواست پر یہ حکم برٹش ورجن آئی لینڈ ہائی کورٹ نے 16 دسمبر 2020 کو جاری کیا۔
کمپنی نے 20 نومبر کو ہرجانے کے نفاذ کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز انویسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے آئی ایل) کے اثاثے بھی شامل تھے۔
اٹارنی جنرل آفس کا کہنا ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ ہائی کورٹ نے پاکستان کو سنے بغیر اثاثے منجمند کرنے کا حکم جاری کیا۔ پاکستانی حکومت ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کے مفادات کا دفاع کرے گی۔
انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ (اکسڈ) نے پاکستان کو 12 جولائی 2019 کو پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا،
پاکستان نے پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر جرمانے کے خلاف رواں سال ستمبر میں مشروط حکم امتناع لیا تھا۔ مشروط حکم امتناع کے تحت پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر غیر ملکی بینک میں جمع کرانا تھے۔
مشروط حکم امتناع کی مدت ختم ہونے پر ٹیتھیان کاپر کمپنی نے پاکستانی قومی اثاثے منجمد کرنے کی درخواست برٹش ورجن آئی لینڈ میں داخل کی، مشروط حکم امتناع کے تحت پاکستان کو غیر ملکی بینک میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی بینک گارنٹی جمع کرنا ضروری تھا۔ لیکن پاکستان کی طرف سے یہ گارنٹی جمع نہ کروائے جانے کے بعد اب عدالت نے اس سلسلے میں نیا حکم جاری کیا ہے۔
ریکوڈک کیس اور ٹیتھیان کاپر کمپنی ثالثی ٹریبونل میں
رواں سال جولائی میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے ریکوڈک پراجیکٹ کیس میں پاکستان پر عائد 5 ارب 97 کروڑ ڈالرز جرمانے پر مستقل حکم امتناع جاری کیا تھا۔ اس بارے میں حتمی فیصلے کے لیے پاکستان کی اپیل پر آئندہ برس مئی میں سماعت ہونا ہے۔
جولائی 2019 میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کی لیزنگ منسوخ کیے جانے پر ثالثی عدالت نے پاکستان کو آسٹریلیا اور چِلی کی کمپنیوں کو چھ ارب ڈالرز جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔ پاکستان کو کہا گیا تھا کہ وہ مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو چار ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کے علاوہ ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم بھی ادا کرے۔
آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل میں پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان یہ تنازع اس وقت زیر بحث آیا جب کمپنی نے 8 ارب 50 کرور ڈالر کا دعویٰ کیا۔ جب کہ بلوچستان کی کان کنی اتھارٹی نے صوبے میں 2011 میں کئی ملین ڈالر کی کان کنی کی لیز دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جولائی 2019 میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل نے آسٹریلین کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔ جس کے فوری بعد کمپنی نے اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کارروائی شروع کردی تھی۔
ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ کیا تھا
7 جنوری 2013 کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 1993 کے ’ریکوڈک‘ معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے اس منصوبے کو ’ریکوڈک معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس مقدمہ کی طویل سماعت کے بعد دسمبر 2012 میں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا، جس کے بعد 7 جنوری 2013 کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں حکومت پاکستان اور ایک غیر ملکی کمپنی کے درمیان اس معاہدے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے تحت معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔
ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھین کاپر کمپنی نے 2006 میں شروع کیا تھا۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم مقامی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں، کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان کے ایک نامور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیئے۔
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے موثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے ہونے والی آمدن پاکستان کو نہ صرف اربوں ڈالر کے بیرونی قرضوں سے نجات د لا سکتی ہے بلکہ یہ منصوبہ بلوچستان کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
ریکوڈک کیس میں پاکستان کا تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ
سال 2019 میں عالمی بینک کے ثالثی فورم پر ریکوڈک فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالرز کے جرمانے کی خبر سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اس نقصان کے ذمہ داران کے تعین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ البتہ قومی احتساب بیورو نے اس پر ایک ریفرنس تیار کیا ہے جس میں حکومتِ بلوچستان کے سابق اعلیٰ حکام سمیت 26 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
سال 2019 میں اس وقت کے اٹارنی جنرل انورمنصور خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے حکم پر جلد کمیشن کی تشکیل ہو جائے گی جو 1993 سے لے کر آج تک پاکستان کو اتنے بھاری نقصان کا سبب بنے والے مقدمے میں ملوث تمام افراد سے پوچھ گچھ کرے گا۔ جن افراد سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی ان میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی شامل تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا، لیکن اب تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
نیب کا ریفرنس
رواں سال نومبر میں بلوچستان کی احتساب عدالت میں دائر کردہ نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔
نیب کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب بلوچستان کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم نے مختلف محکمہ جات کے پرانے ریکارڈ سے شواہد حاصل کیے ہیں۔
احتساب عدالت کے جج منور شاہوانی کی عدالت میں جن افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ان میں سابق گورنر امیر الملک مینگل، سابق چیف سیکرٹری کے بی رند سمیت محکمہ معدنیات اور محکمہ مال سمیت دیگر محکموں کے 26 سابق اعلیٰ افسران شامل ہیں۔
ریفرنس کے مطابق سال 2015 میں محکمۂ داخلہ بلوچستان نے نیب کو مذکورہ افسران کے خلاف انکوائری کرنے کا اختیار دیا تھا، جس پر کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ 1993 میں بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری (بی ایچ پی) نامی آسٹریلیا کی ایک کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں حکومتِ بلوچستان بالخصوص بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے افسران نے آسٹریلوی کمپنی کو غیر قانونی طور پر فائدہ پہنچایا۔
نیب کے مطابق قومی مفادات سے متصادم اس معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف غیر قانونی طریقے سے بلوچستان مائینگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں، بلکہ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدے کر کے ٹیتھیان کاپر کمپنی نامی نئی کمپنی کو متعارف کر کے مزید مالی فوائد حاصل کیے گئے۔
نیب حکام کے مطابق ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور گواہان کے بیانات سے کئی حقائق سامنے آئے جس کے مطابق ٹیتھان کاپر کمپنی کے عہدیداران سرکاری حکام کو رشوت دینے اور ناجائز فوائد حاصل کرنے میں ملوث پائے گئے۔
کیس میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ آف پاکستان بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں حکومت پاکستان کی طرف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے جس میں پاکستانی وسائل کو لوٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے ٹھیکوں کے ذریعے وسائل پر قبضہ کی کوشش کی اور اب مالی نقصان کی صورت میں پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اس میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ اس کیس کو برطانیہ میں درست انداز میں نہیں دیکھا گیا۔ ماضی میں ہم بلوچستان ہائی کورٹ میں ایسی درخواستوں میں حکومت کو ڈیفنڈ کرتے رہے لیکن اس کیس میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں کیا کرنا چاہیے اس بارے میں اٹارنی جنرل ہی بات کر سکتے ہیں۔
نیب ریفرنس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ملوث بہت سے افراد ایسے ہیں جو اس دنیا میں نہیں یا پھر عدالتوں میں آنے کے قابل بھی نہیں۔ اس کیس کی دستاویزات بھی اب موجود نہ ہونگی لہذا یہ صرف آئی واش ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ پاکستان کی عدالتوں نے بہترین فیصلہ دیا تھا لیکن برطانوی عدالتوں میں پاکستان کے کیس کو درست انداز میں ڈیفنڈ نہ کرنے کی وجہ سے آج پاکستان کو یہ مشکل دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔