پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک غیر جانبدار ادارے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے گزشتہ ہفتے بلوچستان میں 29 مزدوروں کی ہلاکت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ 4 مئی کو بلوچستان کے علاقے خاران میں حملہ آوروں نے ایک موبائل فون ٹاور کی تنصیب پر کام کرنے والے مزدوروں کے کیمپ پر اس وقت حملہ کر دیا جب وہ سو رہے تھے۔ اس حملے میں چھ مزدور ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اس کے ایک روز بعد ہی کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے دو مختلف حادثات میں 23 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
ان واقعات میں سے ایک واقعہ ماروار کے علاقے میں پیش آیا جہاں کان میں میتھین گیس بھر جانے کے باعث دھماکا ہوا جب کہ دوسرا واقعہ سورنج میں مٹی کا تودہ گرنے کے باعث پیش آیا۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین نے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’’یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ مزدوروں کو ان علاقوں میں مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی جو سیاسی طور پر حساس سمجھے جاتے ہیں اور جہاں ایسے حملوں کا خطرہ موجود رہتا ہے۔‘‘
ایچ آر سی پی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں مزدوروں کے تحفظ کی ذمہ داری براہ راست طور پر ان افراد پر ہوتی ہے جن کیلئے یہ مزدور کام کر رہے ہوتے ہیں۔
’’یہ ذمہ داری آجروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے آپریشن مزدوروں کی زندگیوں کو غیر ضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالیں۔ جہاں ایسا خطرہ موجود ہو وہاں آجر اپنے ملازمین کو باقاعدہ اور مناسب سکیورٹی فراہم کرنے کے پابند ہیں۔‘‘
ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا کہ کان کنی ایک ایسا پیشہ ہے جو بہترین حالات میں بھی انتہائی مشقت طلب تصور کیا جاتا ہے اور مزدوروں کی زندگیوں کو غیر اہم سمجھنا ناقابل قبول ہے۔
’’کام کے مناسب حالات تشکیل دینا اور انہیں برقرار رکھنا، ریاست اور آجر دونوں ہی کی قانونی ذمہ داری ہے-‘‘