پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ سے 45 کلو میٹر دور مارواڑ اور اسپن کاریز کے قریب سنجدی کے دو مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد 23 ہو گئی ہے ۔ حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق خیبر پختوانخوا کے علاقے شانگلہ اور سوات سے ہے۔ بلوچستان میں دیگر صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سےکوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ حکام نے ابتدائی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ دھماکہ کان میں گیس بھر جانے کی وجہ سے ہوا۔
عبدالرحیم میر داد خیل، سابق سینیٹر اور نیشنل لیبر فیڈریشن، بلوچستان کے صدر ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں معدودے چند کے علاوہ تما م کانیں نجی ملکیت میں ہیں ۔ تاہم حکومت کو چاہئے کہ وہ صرف اس صورت میں لیز دے اگر مالکان تمام ضوابط کو پورا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کانوں کے مالکان اس ذمہ داری کو ٹھیکہ داروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بقول انکے ’ ہم روز اول سے ٹھیکہ داری نظام کے خلاف ہیں ۔ ٹھیکے دار تو اپنے مزدور سے صرف یہ کہتا ہے کہ کام کرو ، ورنہ جاؤ ۔ اور مزدور مجبور ہو کر ایسا کر تا ہے ‘۔
بلو چستان کی صوبائی حکو مت کے ترجمان بلال کاکڑ کا کہنا ہے کہ کان خواہ سرکاری ہو یا نجی ملکیت والی، کسی حادثہ کی صورت میں صوبے کے کان کنی کے محکمے کی ایک کمیٹی، ڈپٹی کمشنر کی سر براہی میں مکمل چھان بین کرتی ہے اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف ضابطہ کے مطابق کاروائی کی جاتی ہے ۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی میتیں اب ان کے آبائی علاقوں میں پہنچ گئی ہیں تاہم عبدالرحیم میر داد خیل کا کہنا ہے کہ اس میں صوبائی حکومت نے کوئی تعاون نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا ’ ہم رات دو بجے فارغ ہوئے اور ہم نے مطالبہ کیا کہ ان میتوں کو فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ آٹھ گھنٹے میں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچا دیا جائے لیکن حکو مت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس لئے اس گرمی میں ہم نے انہیں ایمبو لینسوں کے ذریعہ بھیجا ‘۔
بلال کاکڑ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے المناک واقعات میں اگر صوبائی حکومت سے درخواست کی جائے تو وہ ہیلی کاپٹر یا جہاز فراہم کرتی ہے ۔ لیکن حالیہ واقعے میں ایسی کوئی درخواست ان کے علم میں نہیں ہے ۔ بقول انکے ’ ’بلو چستان حکومت کے پاس جہازوں اور ہیلی کاپٹر وں کا ایک نظام موجود ہے، اور شہریوں کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن انتظامیہ سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی ‘۔
ڈپٹی کمشنر فرح عتیق جو کہ خود بھی ریسکیو کے عمل کی نگرانی کے لیے مارواڑ کے علاقے میں تھے، انہوں نے اپنی فیس بک میں اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ’ ایسے حادثات زیادہ معائنوں اور سیکیورٹی کے انتظامات کے متقاضی ہیں ‘۔
اس رپورٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے ہوئے لنک پر کلک کریں ۔