اسلام آباد —
پاکستان میں ایک اہم فوجی شہر راولپنڈی کے قریب سیکورٹی ادارے کی ایک گاڑی پر خود کش بم حملے میں دو افسران سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ واقعہ بدھ کی صبح ترنول نامی علاقے میں پیش آیا جہاں ایک حساس ادارے کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔
حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور وہاں سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی میں بری فوج کے ہیڈکوارٹرز اور وزارت دفاع کے علاوہ متعدد اہم حساس اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔
سیکورٹی امور پر تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امیتاز گل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند اب بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
’’صاف ظاہر ہے کہ ان کی نگرانی ہورہی تھی کہ کون سے گاڑیاں کس علاقے سے جاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ گاڑی گزر رہی ہے اور اچانک کسی نے ایسے ہی اٹھ کر حملہ کردیا۔ ماضی میں بھی ایسے حملے اسی بات کا اشارہ دیتے تھے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی جو غالباً ان اداروں کے کچھ دوسرے ملکوں و نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہمدرد کی مخبری پر ہوئے۔‘‘
ابھی تک کسی گروہ کی طرف سے راولپنڈی کے قریب ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم نواز شریف انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے اعلان کردہ ایک ماہ کی فائر بندی ختم کرتے ہوئے طالبان شدت پسندوں نے فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔
اسی وقت سے مذاکرات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے تاہم شدت پسندوں کی طرف سے حملے کی صورت میں ’’بھرپور‘‘ جوابی کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ترنول میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو حکمت عملی وزیراعظم صاحب نے اختیار کی اور جس پر ہمارے سلامتی کے ادارے عمل کررہے ہیں وہ ہمارے علم میں ہے اور کامیاب حکمت عملی ہے جس کے نتائج پاکستان کو پرامن اور محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔"
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں تقسیم بھی ایسے حملوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ قبائلی علاقوں کی سیکورٹی کے سابق سربراہ محمود شاہ کہتے ہیں۔
’’ہر کمانڈر اپنے اپنے خیالات رکھتا ہے اس میں سخت گیر مہمند کے طالبان ہیں جبکہ اس میں جو خطرناک محسود عسکریت پسند تھے وہ تقریباً بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ حکومت کے لئے اچھا ہے مگر انہیں ایسے واقعات کو دیکھنا ہوگا کیونکہ شدت پسند گروہوں کے ٹکڑے ہونے کی صورت میں اس کے اثرارت ہوں گے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کے آپس کے اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو قبائلی علاقوں بالخصوص وزیرستان میں قبائلی عمائدین کے تعاون سے اپنی عمل داری قائم کرنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔
گزشتہ ماہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر بم حملوں کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جس کے بعد پاکستانی فوج نے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے وہاں 80 سے زائد ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
یہ واقعہ بدھ کی صبح ترنول نامی علاقے میں پیش آیا جہاں ایک حساس ادارے کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔
حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور وہاں سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی میں بری فوج کے ہیڈکوارٹرز اور وزارت دفاع کے علاوہ متعدد اہم حساس اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔
سیکورٹی امور پر تحقیقات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امیتاز گل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند اب بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
’’صاف ظاہر ہے کہ ان کی نگرانی ہورہی تھی کہ کون سے گاڑیاں کس علاقے سے جاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ گاڑی گزر رہی ہے اور اچانک کسی نے ایسے ہی اٹھ کر حملہ کردیا۔ ماضی میں بھی ایسے حملے اسی بات کا اشارہ دیتے تھے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی جو غالباً ان اداروں کے کچھ دوسرے ملکوں و نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہمدرد کی مخبری پر ہوئے۔‘‘
ابھی تک کسی گروہ کی طرف سے راولپنڈی کے قریب ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم نواز شریف انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے اعلان کردہ ایک ماہ کی فائر بندی ختم کرتے ہوئے طالبان شدت پسندوں نے فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔
اسی وقت سے مذاکرات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے تاہم شدت پسندوں کی طرف سے حملے کی صورت میں ’’بھرپور‘‘ جوابی کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ترنول میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو حکمت عملی وزیراعظم صاحب نے اختیار کی اور جس پر ہمارے سلامتی کے ادارے عمل کررہے ہیں وہ ہمارے علم میں ہے اور کامیاب حکمت عملی ہے جس کے نتائج پاکستان کو پرامن اور محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔"
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں تقسیم بھی ایسے حملوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ قبائلی علاقوں کی سیکورٹی کے سابق سربراہ محمود شاہ کہتے ہیں۔
’’ہر کمانڈر اپنے اپنے خیالات رکھتا ہے اس میں سخت گیر مہمند کے طالبان ہیں جبکہ اس میں جو خطرناک محسود عسکریت پسند تھے وہ تقریباً بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ حکومت کے لئے اچھا ہے مگر انہیں ایسے واقعات کو دیکھنا ہوگا کیونکہ شدت پسند گروہوں کے ٹکڑے ہونے کی صورت میں اس کے اثرارت ہوں گے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کے آپس کے اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو قبائلی علاقوں بالخصوص وزیرستان میں قبائلی عمائدین کے تعاون سے اپنی عمل داری قائم کرنے کی کوششیں کرنی چاہیں۔
گزشتہ ماہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر بم حملوں کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جس کے بعد پاکستانی فوج نے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے وہاں 80 سے زائد ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔