سياحتی امور سے متعلق برطانیہ کے معروف جريدے کونڈے نیسٹ ٹريولز نے پاکستان کو 2020 ميں تعطيلات کے دوران سياحت کے لیے بہترين ملکوں ميں اولين قرار ديا ہے۔
اس جريدے کو سياحت اور لائف اسٹائل کا مقبول ترين ميگزين ہونے کے ناتے سے متعدد ايوارڈز سے بھی نوازا گيا ہے۔
جريدے کے مطابق پاکستان ميں دہشت گردی کے خاتمے کے بعد سياحت کے شعبے کو کافی فروغ ملا ہے۔ امن و امان کی بحالی، قديم ثقافت، ويزا پاليسی ميں نرمی، دنيا کے سب سے بلند پولو گراؤنڈ اور برطانوی شاہی جوڑے کے حالیہ دورے کے بعد ملک کو وہ مقام مل رہا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔
ميگزين کے مطابق پاکستان ميں 22 ہزار فُٹ کی بلند و بالا چوٹيوں کی تعداد چين اور نيپال سے کہيں زيادہ ہے جو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔
'کونڈے نیسٹ' نے پرکشش سیاحتی ملکوں کی فہرست ميں برطانيہ کو دوسرے، کرغزستان تيسرے، آرمينيا چوتھے اور برازيل کو پانچويں نمبر پر رکھا ہے۔
اس ضمن ميں صوبہ خيبر پختونخوا کی حکومت نے سياحت کو فروغ دينے کے لیے مالاکنڈ اور ہزارہ ڈويژنز ميں نئے سياحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمير کے لیے پانچ ارب روپے کی رقم کی منظوری دی ہے۔
سينئر صوبائی وزير عاطف خان کے مطابق پہلے مرحلے ميں 14 سڑکيں تعمير کی جائيں گی جن پر آئندہ ماہ تعميراتی کام شروع ہو جائے گا۔
نئے سياحتی مراکز ميں مالاکنڈ کے اناکڑ، مغزار، برج بانڈہ، کافر بانڈہ، مدين، بشی گرام، ارين، دارال، گودر جھيل اور بحرين روڈ شامل ہيں۔ ہزارہ ڈويژن کے ماہ نور ويلی، گنول، پاپڑنگ، شوگران، کورابن تا منڈی سيران، کومل گلی اور سہرہ روڈ بھی اس فہرست میں ہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے عاطف خان نے کہا کہ صوبے میں پہلے صرف تين سياحتی مقامات تھے جو اب بڑھ کر 14 ہو گئے ہيں۔ اس سے لوگوں کو نئی جگہيں ديکھنے کو مليں گی اور موجودہ مقامات پر سے بوجھ کم ہو جائے گا۔
ياد رہے کہ عيدين اور دیگر مواقع پر جب ہزاروں کی تعداد ميں سياح کسی سیاحتی مقام کا رُخ کرتے ہيں تو رش کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عاطف خان نے مزيد بتايا کہ اُن کی حکومت مختلف سياحتی زونز بنانے پر بھی کام کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے پانچ مقامات پر اسکی ريزورٹ، چيئر لفٹ اور کشتی بانی جیسی سرگرمیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جس کے ذریعے سياح نہ صرف ان خوبصورت مقامات کی سير سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ وہاں اُنہیں کھيل کُود کے مواقع بھی مليں گے۔
انہوں نے کہا کہ زيادہ تر سياحتی مقامات صوبہ خيبر پختونخوا ميں ہی ہيں جن ميں بلند و بالا پہاڑ، دريا، ايڈونچر ٹور ازم اور بدھ مت کی قدیم یادگاریں ہيں۔
عاطف خان کا کہنا تھا کہ جاپان، کوريا اور تھائی لينڈ کے نمائندوں نے سیاحتی مقامات پر سرمایہ کاری کے لیے صوبائی حکومت سے بات کی ہے اور يہاں پر سياحت کی بہت زيادہ صلاحيت ہے۔
صوبائی وزیرِ سیاحت کے مطابق وہ اميد کرتے ہيں کہ سیاحتی صنعت کے ذریعے نہ صرف خيبر پختونخوا بلکہ پورا پاکستان بہت زيادہ ترقی کر سکتا ہے۔ ان کے بقول ايک محتاط اندازے کے مطابق ايک غير ملکی سياح اپنے دورے کے دوران کم از کم دو ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے جس سے مقامی معیشت پروان چڑھتی ہے۔
ان کے بقول، "ٹورزم انڈسٹری کی خاص بات يہ ہے کہ يہ روزگار کے مواقع گھر کی دہليز پر مہيا کرتی ہے۔"
صوبہ خيبر پختونخوا سال 2006 سے 2013 تک دہشت گردی کی لپيٹ میں رہا تھا جس کی وجہ سے باقی ماندہ کاروباری سرگرميوں کے ساتھ یہاں سياحت کے شعبے کو بھی شديد نقصان پہنچا تھا۔
حالات کے بہتر ہو جانے کے بعد اگرچہ بیشتر مقامات پر غير ملکی سياحوں کے داخلے پر پابندی تو ہٹ چکی ہے ليکن اب بھی جگہ جگہ سيکیورٹی فورسز کے اہلکار گاڑيوں کو مختلف مقامات پر چيک کرتے ہيں۔
سعيد خان گزشتہ 20 برسوں سے سياحت کے شعبے سے وابستہ ہيں۔ اُن کے مطابق غير ملکی سياح صوبہ خيبر پختونخوا ميں مختلف علاقوں کا رُخ کرتے ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ چوں کہ پشاور کا شمار جنوبی ايشيا کے قديم ترين شہروں ميں ہوتا ہے اور یہ سلک روٹ کا بھی حصہ رہا ہے، اس لیے غير ملکيوں کے لیے یہ شہر خاص توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔
سعید خان کے بقول، پشاور سے تقریباًً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر بودھ تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام 'تخت بائی' کے کھنڈرات دیکھنے کے لیے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہ سوات جاتے ہیں۔
ٹور آپریٹر سعيد خان کے مطابق کچھ غير ملکيوں کو ترجمان کے مسائل ہوتے ہيں کيونکہ زيادہ تر لوگ يہاں صرف انگريزی، عربی اور فرانسيسی ہی بول سکتے ہيں۔ جب کہ سياحوں کو بعض مقامات پر واش رُومز کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اُن کے بقول، "تخت بائی کے کھنڈرات کا شمار يونيسکو کے عالمی ثقافتی ورثے ميں ہوتا ہے ليکن وہاں واش رُومز کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔"
سعيد خان کے مطابق چترال کے لیے سڑک اپر دير کے بعد بہت خراب ہے اور بالائی علاقوں میں موبائل سگنلز کا بھی مسئلہ ہے۔ غير ملکی سياحوں کے لیے نقشوں کی فراہمی بھی ايک اہم مسئلہ ہے۔
سعید خان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی سياحتی انڈسٹری ميں بے پناہ صلاحيت ہے اور اگر سڑکوں کا بنيادی ڈھانچہ درست کر ليا جائے تو پاکستان ميں سياحت بہت جلد ترقی کی منازل طے کر لے گی۔