رسائی کے لنکس

پاکستان میں رمضان کے معنی


پاکستان میں رمضان کے معنی
پاکستان میں رمضان کے معنی

دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ماہ رمضان کا آغاز ہوگیا ہے اور آج پہلا روزہ تھا۔ مسلم عقائد کے مطابق یہ بہت بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ زیادہ سے زیادہ عبادت کی جاتی ہے۔ لیکن معاشرتی طور پر پاکستان میں رمضان کے معنی بدلنے لگے ہیں۔ مثلاً سیکورٹی کے جتنے انتظامات اس ماہ کرنے پڑتے ہیں اتنے کسی اور مہینے میں کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حکومت کو مہنگائی کی روک تھام کے لیے زیادہ صلاحیت دکھانا پڑتی ہے۔ اشیائے خوردو نوش پر سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ بچت بازار وں اور رعایتی نرخوں کا بھی تعین کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ٹریفک کے اژدھام کی صبح شام روانی کے لئے خصوصی پلان تیار کئے جاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کو زیادہ کام اور ڈیوٹیز انجام دینی پڑتی ہیں۔ بجلی کا محکمہ بھی یہ اعلان کرتا ہے کہ سحری اور افطار کے وقت لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی اور اس وعدہ کی تکمیل کئے ملازمین کو "اوور ٹائم" کرنا پڑتا ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ سالوں کی کچھ تلخ یادیں بھی اس ماہ تازہ ہوجاتی ہیں۔ مثلاً سن انیس سو چورانوے کے ماہ رمضان کی بات ہے جب کراچی کے مختلف علاقوں کی کئی مساجد اور امام بارگاہوں میں نمازیوں پر فائرنگ کی گئی۔ نامعلوم افراد کی فائرنگ کے پے در پے واقعات کے سبب پنج وقتہ نماز اور خصوصاًتراویح پڑھنے والے افراد میں ایک خوف پیدا ہوگیا۔ لہٰذا مساجد اور امام بارگاہوں کے گرد اس قدر سخت سیکورٹی لگا دی گئی کہ ہر نمازی کی اندر جانے سے پہلے نہ صرف تلاشی لی جانے لگی بلکہ نماز کے وقت پوری مسجد کو گھیرے میں لے لیا جاتا۔ باقاعدہ اسلحہ بردار گارڈز عبادت گاہوں کی چھتوں اور چیک پوسٹوں پر بٹھانے پڑے۔ پولیس کے علاوہ محلے کے لوگ بھی نماز کے وقت مسجد کی چوکیداری کرتے اور جب تک نماز ختم نہیں ہوجاتی نمازیوں میں بھی خوف طاری رہتا۔ فائرنگ کے متعدد واقعات میں درجن بھرسے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

بعد کے آنے والے سالوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے نشانہ بنایا۔ لیاقت آباد اور دیگر علاقوں کی مساجد میں ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ نارتھ کراچی کی مسجد بابل الاسلام میں بم دھماکا بھی رمضان کے دنوں میں ہی ہوا۔ اس لئے پاکستان میں رمضان کے معنی سخت ترین سیکورٹی انتظامات کے بھی لئے جاتے ہیں۔

چنانچہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لئے اس بار ہر چھوٹے بڑے شہر میں سخت سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ سحر، افطار، نماز تراویح سمیت تمام نمازو ں کے اوقات میں مساجد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کئے گئے ہیں اور مساجد کے ایک سے زائد گیٹس بند کر کے آمد و رفت کیلئے صرف ایک ہی گیٹ استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

ہمارے یہاں سیکورٹی کے بعد جو مسئلہ رمضان میں موضوع بنارہتا ہے وہ مہنگائی کا ہے۔ وائس آف امریکا کے نمائندے نے رمضان سے دو روز پہلے اور آج یعنی پہلے روزے کو مارکیٹ سروے کیا۔ ان دونوں دنوں میں روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نہایت فرق دیکھنے کو ملا۔ سبزیوں اور فروٹ کی جو قیمتیں دو روز پہلے کم تھیں وہ پہلے روزے کو ہی بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھیں ۔ پیاز، ٹماٹر، لہسن اور آلو کی قیمتوں میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ دو دن پہلے ٹماٹر چالیس روپے کل تھاجبکہ آج اس کی قیمت 62 روپے کلوتھی۔ سپر مارکیٹوں کا حال اس سے زیادہ برا ہے۔ یہاں ٹماٹر کی قیمت 100 روپے کلو ہے۔ سرکاری ہفتہ وار بازاروں میں بھی 5 کلو نمکین آلووٴں کی قیمت 160 روپے سے بڑھ کر 400 روپے ہو چکی ہے تاہم، کم ذائقے دار میٹھے آلووٴں کی قیمت 140 روپے فی 5 کلوگرام ہے۔

حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے عوام کو یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے چینی، آٹا، گھی، تیل، چنے، بیسن اور کھجوروں سمیت مختلف غذائی اشیاء کی قیمتوں کو زیادہ قابل استطاعت بنانے کے لئے 4 ارب روپے کے رمضان ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ ریلیف پیکیج کے تحت، یوٹیلٹی اسٹوروں پر چینی کی قیمت 55 روپے کلوہو گی جبکہ بازار میں یہ 65 سے 70 روپے کلو ہے۔ اسی طرح 20 کلوگرام آٹے کا تھیلا 580 روپے کی بجائے 300 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

حکومت سندھ نے رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کے دورا ن معمول کے جمعہ و اتوار بازاروں سمیت روزانہ کی بنیاد پر سستے رمضان بازار لگانے کی ہدایت کی ہے اور تمام ڈویژنل کمشنرز ، ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسرز، چیئر مینز و ایڈمنسٹریٹرز مارکیٹ کمیٹیوں کے نام جاری کئے گئے مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ تمام شہروں کے مرکزی مقامات پر رمضان المبارک کے دوران سستے بازار لگانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں جہاں چینی، آٹے، گھی، چاول ، دالوں ، سبزیوں،گرم مصالحوں ،گوشت، پھلوں سمیت تمام معیاری اشیائے ضروریہ سستے داموں پر مہیا کی جائیں۔

لیکن ان تمام انتظامات کے باوجود منافع خور اپنی من مانی کرنے سے نہیں باز نہیں آتے ۔ان کے بقول "جناب یہی تو ایک مہینہ ہوتا ہے کمانے کھانے کا"۔

تقریباً ڈیٹرھ کروڑ کی آبادی والے شہرمیں رمضان میں ایک اور اہم مسئلہ سرابھارتا ہے اور وہ ہے ٹریفک جام کا مسئلہ! اسے اتفاق کہیے یا منصوبہ بندی کراچی شہر میں سرکاری دفاتر ، نجی دفاتر، تھوک و پرچون مارکیٹ، ملٹی نیشنل کمپنیز کی دفاتر، میڈیا دفاتر، کثیر الملکی بینک اور ان کے ہیڈ آفسز سب ایک ہی کونے پر بنے ہیں۔ لہذا صبح سویرے سارا ٹریفک صدر سے ٹاور کے لئے نکلتا اور شام کو وہاں سے واپس آتا ہے ۔ سب لوگ ایک وقت میں جاتے اورایک ہی وقت میں واپس آتے ہیں اس لئے ان لاکھوں افراد اور ہزاروں گاڑیوں کے بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے شہری حکومت کو رضاکار بھرتی کرنے پڑتے ہیں جو ٹریفک پولیس کی معاونت سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کو بھی اضافی نفری درکار ہوتی ہے ۔

عام آدمی ٹریفک پولیس اور پولیس دونوں سے مطمئن نہیں۔ کانسٹیبل اگر رمضان میں چالان کریں تو کہا جاتا ہے افطاری کے پیسے اکھٹے کررہا ہے، اور عید کے دن قریب ہوں تو کہا جاتا ہے کہ عیدی اکھٹی کررہا ہے۔ گویا دونوں طرح سے بدنام ہیں۔ فرض اداکریں تو مال اکھٹاکرنے کا الزام اور نہ کریں تو حرام خوری کا الزام! یہ الزام کہاں تک سچ یا کہاں تک جھوٹ ہے اس کا فیصلہ توایک طرف حقیت یہی ہے کہ رمضان میں ٹریفک کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے انتظامات سنبھالنے والوں کو بھی زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

XS
SM
MD
LG