پشتون تحفظ تحریک نے حکومت سے بات کرنے کے لیے اپنے نمائندوں نامزد کر دیے ہیں جو میں بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔
پی ٹی ایم کے ایک مرکزی رہنما علی وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس جرگے میں تحریک کے رہنما منظور پشتین شامل نہیں ہیں جب کہ تین مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس میں نامزد کیا گیا ہے۔
ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات کسی ایک علاقے تک محدود نہیں اور وہ ملک میں بسنے والے تمام پشتونوں کی بات کر رہی ہے۔
پی ٹی ایم کے نامزد کردہ لوگوں میں محسن داوڑ، لطیف آفریدی، افرسیاب خٹک، بشریٰ گوہر، سینیٹر عثمان کاکڑ، سینیٹر رضا محمد رضا، نواب ایاز خان جوگیزئی، گل مرجان خان، فانوس گجر اور فضل خان شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی صوبائی حکومت کے جرگے سے ملاقات ہوئی تھی جس میں تحریک کے رہنماؤں نے حکومت سے بات کرنے کے لیے اپنے نمائندوں کے انتخاب کی غرض سے کچھ وقت مانگا تھا۔
علی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ بتایا دیا گیا ہے کہ دونوں جرگے بااختیار ہوں گے اور مشاورت کے دوران ہونے والے فیصلوں کو تسلیم کرنا فریقین پر لازم ہو گا۔
رواں سال کے اوائل میں پشتونوں کی جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک کے خلاف قبائلی نوجوانوں نے آواز بلند کی تھی جو دیکھتے ہی دیکھنے تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے۔
یہ تحریک ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں جلسے منعقد کر چکی ہے لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں اس کی کوریج نہیں کی گئی جب کہ بظاہر اس کے مقابلے میں پاکستان تحفظ تحریک کے نام سے بھی ایک گروپ سامنے آ چکا ہے جس نے پی ٹی ایم کے رہنماؤں پر غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مختلف جلسے کیے۔
تاہم پشتون تحفظ تحریک کے رہنما کسی بھی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے یا غیر ملکی امداد لینے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں ان کے مطالبات جائز ہیں اور وہ اس کا پاکستان کے آئین کے مطابق حل چاہتے ہیں۔