پاکستان نے امریکی محکمہ دفاع کی اس رپورٹ پر احتجاج کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت میں اب بھی شدت پسندوں کا ’درپردہ‘ استعمال کر رہا ہے۔
بدھ کو امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اس بارے میں اپنی حکومت کی تشویش سے اُنھیں آگاہ کیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت پاکستان کو اُس رپورٹ کے مندرجات پر شدید تحفظات ہیں جو امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے کانگریس کو بجھوائی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ مشترکہ مفاد میں امریکہ سے پاکستان کے تعاون کو دیکھا جائے تو رپورٹ میں دہشت گردوں کی موجودگی اور افغانستان و بھارت میں شدت پسندوں کے درپردہ استعمال سے متعلق لگائے گئے یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے بقول رپورٹ میں نامناسب بیان پر پاکستان کے احتجاج سے امریکی سفیر کو آگاہ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے الزامات اس موقع پر اس لیے بھی باعث تشویش ہیں کیوں کہ اس وقت حکومت پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن میں مصروف ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ کو امریکہ سمیت عالمی سطح پر سراہا گیا کیوں کہ اس کے ذریعے کامیابی سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا گیا ہے اور یہ تمام شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کیا جا رہا ہے۔
بیان میں اس اُمید کا اظہار کیا گیا کہ اس معاملے کو درست پیرائے میں دیکھا جائے گا۔
امریکہ محکمہ دفاع کی طرف سے ’افغانستان میں سلامتی اور استحکام میں پیش رفت‘ کے نام سے جاری کردہ اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں ’پراکسی فورسز‘ یا درپردہ لڑنے والی طاقتوں کا استعمال اس لیے کر رہا ہے کیوں کہ وہاں اُس کا اثرورسوخ کم ہو رہا ہے۔
پاکستان اس سے قبل بھی ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی رواں ماہ امریکہ کا دورہ کرنا ہے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی سے متعلق اُمور میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی جائے گی۔