پاکستان کے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایگزیکٹ نامی کمپنی کے جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہونے کے الزامات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور وقت طلب ہونے کے باوجود اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اگر ضرورت پڑی تو بیرون ملک سے بھی ماہرین کو بلوایا جا سکتا ہے۔
’’اگر کوئی تکنیکی مسائل ہیں تو ہم باہر سے مدد لے کر اس (تفتیش) کو مکمل کریں گے۔ مگر قبل از وقت فیصلہ کرنا، بہت زیادہ اسے (اجاگر) کرنا، تفتیش پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘‘
منگل کو امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" نے اپنی ایک خبر میں انکشاف کیا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک پاکستانی کمپنی "ایگزیکٹ" مبینہ طور پر دنیا بھر میں جعلی تعلیمی اسناد کے کاروبار میں ملوث ہے اور اس طرح اس نے لاکھوں ڈالر بٹورے ہیں۔
اس خبر کے منظرعام پر آتے ہی پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایک طوفان برپا ہوگیا جس کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنی گئی۔
حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کو فوری طور پر معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا جس کے اہلکاروں نے کمپنی کے راولپنڈی اور کراچی میں دفاتر پر چھاپے مارے۔
بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ کمپنی کے راولپنڈی اور کراچی میں قائم دفاتر کو سربمہر کر دیا گیا ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والے 42 کمپیوٹر سرورز کی فرانزک جانچ کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کمپنی کے بعض ارکان کو پوچھ گچھ کے لیے حکام اپنے ساتھ لیے گئے جب کہ ضرورت کے مطابق کمپنی کے دیگر عہدیداروں کو بھی طلب کیا جارہا ہے۔
’’اُن کے دس ڈائریکٹر ہیں، اس میں پہلے مرحلے میں جو ان کا ڈائریکٹر تعلیم ہے جس کے متعلقہ یہ یونیورسٹیاں یا کالجز ہیں ان کو نوٹس دیا گیا ہے۔ ایک ایک کر کے جو متعلقہ باقی ڈائریکٹرز یا چیف ایگزیکٹو ہیں تو ان سے بھی پوچھ گوچھ ہو گی۔‘‘
پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز پر منگل ہی سے ایگزیکٹ کمپنی اور اس کے تحت مجوزہ میڈیا ہاؤس "بول" سے متعلق تحقیقی اور تنقیدی مذاکرے اور بحث جاری ہے۔
وزیر داخلہ نے ذرائع ابلاغ سے اپیل کی کہ یہ پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے وہ اور نادانستہ طور پر تحقیقات پر اثر انداز ہونے سے گریز کریں۔
’’تمام میڈیا کو بلکہ تمام قوم کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس پر اُوپن اور فرینک انکوائری ہوئی گی۔ کسی دباؤ کو ملحوض خاطر نہیں رکھا جائے گا۔۔۔۔۔ مگر ہم قبل از وقت نتائج پر نا پہنچیں۔۔۔ ہم پہلے ہی بندے کو مجرم اور ملزم گردان نا دیں۔‘‘
انھوں نے اس موقع پر اسکینڈل میں حکومت کی منشا شامل ہونے سے متعلق نیویارک ٹائمز کے ایک اداریے کا حوالہ دیتے ہوئے اسے بھی یکسر مسترد کیا اور کہا کہ امریکی اخبار کے لوگوں کو بھی قبل از وقت رائے قائم کرنے یا فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی دستاویزات کے ساتھ حکام کے سامنے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کر رکھے ہیں جب کہ دیگر متعلقہ اداروں سے بھی اس کمپنی کے مالی معاملات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
ایگزیکٹ کمپنی نے نیویارک ٹائمز کی خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ وہ اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔