پاکستان کے صدر ممنون حسین نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے منانے سے گریز کریں کیونکہ یہ دن اسلامی روایت کا نہیں بلکہ مغرب کا حصہ ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ویلنٹائن ڈے کا پاکستان کی ثقافت و روایات سے کوئی تعلق نہیں اس لیے یہ دن منانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
محبت کے اظہار سے منسوب یہ دن دنیا بھر میں ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے اور حالیہ برسوں میں پاکستان کے خصوصاً بڑے شہروں میں اس دن پر نجی حیثیت میں مختلف تقریبات کا اہتمام رواج پا چکا ہے۔
یہ دن لوگ خصوصاً نوجوان نسل تحائف اور پھولوں کا تبادلہ کرنے میں گزارتی ہے اور اسی بنا پر پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کے لیے ویلنائن ڈے سال کے بہترین دنوں میں سے ایک ہوتا ہے۔
صدر کی طرف سے اس مشورے پر کوئی بڑا ردعمل تو دیکھنے میں نہیں آیا یہ امر قابل ذکر ہے کہ ویلنٹائن دے پر بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے اس تہوار کی پرزور انداز میں مخالفت اور مختلف مواقع پر اس کی ممانعت کے لیے تشدد کا سہارا لینے کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔
رواں ہفتے ہی شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہاٹ کے ناظم نے ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس سلسلے میں پولیس کو ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ابلاغ عامہ کے استاد و محقق اور انسانی حقوق کے سینیئر کارکن ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ مذہب کا نام لے کر کسی تہوار کی حوصلہ شکنی کرنا صحت مند معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ویلنٹائن ڈے کا تعلق کسی مذہبی روایت سے نہیں بلکہ یہ ایک سرگرمی ہے جو کہ ان کے نزدیک نقصان دہ نہیں۔
"محبت کا اظہار یا کسی کو پھول پیش کرنا اس سے معاشرے کو کوئی نقصان ہونے کا خدشہ نہیں ہے خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں ہر روز بم استعمال ہوتے ہیں، فائرنگ ہوتی ہے، لوگ مرتے ہیں وہاں اگر محبت کا پرچار کیا جائے تو اس کے کوئی نقصان ہونے کا احتمال نہیں اس سے فائدہ ہی ہوسکتا ہے۔"
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ایسی قدغنیں اور موقف منافرت پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے خلاف متحد ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک روز قبل ہی پشاور کی ضلعی اسمبلی نے متفقہ طور پر ضلع میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی عائد کرنے کی قرار داد منظور کی تھی اور اس میں بھی یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ تہوار مذہبی اور ثقافتی روایات کے منافی ہے۔