حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور حزب مخالف کے درمیان لفظوں کی جنگ بدستور جاری ہے اور فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر آئے روز الزامات اور تندوتیز بیانات داغے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کو سیاسی محاذ کے علاوہ قانونی محاذ پر بھی مشکل وقت کا سامنا ہے کیونکہ ان کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں کارروائی جاری ہے۔
بدھ کو نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد محمد صفدر اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں نیب کی طرف سے پیش کردہ گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کروائے۔
عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں نواز شریف نے ایک بار پھر حزب مخالف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک روز قبل قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ایک مجوزہ ترمیم لانے پر پیپلزپارٹی سے شکوہ بھی کیا۔
"مجھے پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے قریب سے بھی جمہوریت نہیں گزری۔۔۔لیکن پیپلز پارٹی نے جو کل آمروں کے اس قانون کی حمایت کی اس سے بڑی تکلیف ہوئی اور اس سے پیپلز پارٹی کے جمہوری اقدا پر انگلی کھڑی ہو رہی ہے۔"
پیپلز پارٹی قانون کی اس شق کی مخالفت میں ترمیم لے کر آئی تھی جو کسی بھی نااہل شخص کو سیاسی جماعت کی سربراہی کی اجازت دیتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ فرد واحد کو فائدہ پہنچانے والی شق ہے لیکن حکومتی عہدیداران اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر راہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن نواز شریف اپنے بیانات سے جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ادھر نواز شریف کے سب سے بڑے ناقد اور حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو حسب روایت شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
کوہاٹ میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "میں آج ان 160 ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ شرم سے ڈوب جائیں، دنیا کی جمہوریت کی تاریخ میں کسی نے اپنے ملک کا مذاق نہیں اڑایا اس طرح کہ ایک مجرم جسے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ نا اہل قرار دے چکا ہے وہ اس کو پارٹی کا سربراہ بنا رہے ہیں اور یہ خود کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں۔"
قومی اسمبلی میں منگل کو پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی مجوزہ ترمیم کے خلاف 163 ووٹ آئے تھے جب کہ اس کے حق میں 98 ووٹ آئے تھے۔