پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا سیاسی اتحاد’متحدہ مجلس عمل‘ (ایم ایم اے) بحال ہوگیا ہے۔ تاہم، جماعتِ اسلامی اور جے یو آئی(س) اِس گروپ میں شامل نہیں ہیں۔
چھ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ایم ایم اےنائن الیون کےبعدافغانستان میں اتحادی افواج کی آمد کےبعد تشکیل پایا تھا۔ اِس اتحاد میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ، جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ، جمعیت اہلحدیث اور اہل تشیع نمائندہ جماعت تحریک اسلامی پاکستان شامل تھی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کےدورمیں ہونےوالے2002ءکے عام انتخابات میں اس اتحاد کو واضح کامیابی ملی اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ )میں اس کی حکومت قائم تھی۔ تاہم، اپنی حکومت کی مدت پوری ہوتے ہی یہ اتحاد غیرفعال ہوگیا اورتمام جماعتیں الگ الگ ہو گئیں تھیں۔
کافی عرصے سے اِس اتحاد کو دوبارہ فعال بنانےکی کوششیں جاری تھیں۔ تاہم، دو بڑی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کے درمیان اختلافات کے باعث ایم ایم اے اب تک بحال نہ ہو سکی تھی۔
جمعرات کو اسی حوالے سے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں اہم اجلاس ہوا جس میں جے یو آئی ف، مرکزی جمعیت اہلحدیث، اسلامی تحریک، جے یو پی اور جے یو آئی سینئر کے رہنماوٴں نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں ایم ایم اے کی بحالی اور تنظیم سازی کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ادھر جماعت اسلامی کا موٴقف ہے کہ اُس سے ایم ایم اے کی بحالی کیلئے مشاورت نہیں کی گئی۔ مختلف میڈیا چینلز سے گفتگو میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کہا ہے کہ چند لوگ ایم ایم اے پر اپنا حق سمجھتے ہیں ، وہ جب چاہتے ہیں اسے معطل کر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فعال کر دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر چہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کیلئے کاوشوں میں کامیاب نظر آتے ہیں، تاہم جماعت اسلامی کےبغیر اس اتحاد کی بحالی ملکی سیاسی صورتحال پر خاطرخواہ اثرات مرتب نہیں کر سکے گی، کیونکہ ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایم ایم اے میں سب سےزیادہ جماعت اسلامی کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا اور اگر ایم ایم اے نےخیبر پختونخواہ پر حکومت کی تو اس میں بڑا حصہ جماعت اسلامی کا بھی تھا۔
چھ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ایم ایم اےنائن الیون کےبعدافغانستان میں اتحادی افواج کی آمد کےبعد تشکیل پایا تھا۔ اِس اتحاد میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ، جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ، جمعیت اہلحدیث اور اہل تشیع نمائندہ جماعت تحریک اسلامی پاکستان شامل تھی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کےدورمیں ہونےوالے2002ءکے عام انتخابات میں اس اتحاد کو واضح کامیابی ملی اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ )میں اس کی حکومت قائم تھی۔ تاہم، اپنی حکومت کی مدت پوری ہوتے ہی یہ اتحاد غیرفعال ہوگیا اورتمام جماعتیں الگ الگ ہو گئیں تھیں۔
کافی عرصے سے اِس اتحاد کو دوبارہ فعال بنانےکی کوششیں جاری تھیں۔ تاہم، دو بڑی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کے درمیان اختلافات کے باعث ایم ایم اے اب تک بحال نہ ہو سکی تھی۔
جمعرات کو اسی حوالے سے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں اہم اجلاس ہوا جس میں جے یو آئی ف، مرکزی جمعیت اہلحدیث، اسلامی تحریک، جے یو پی اور جے یو آئی سینئر کے رہنماوٴں نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اجلاس میں ایم ایم اے کی بحالی اور تنظیم سازی کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ادھر جماعت اسلامی کا موٴقف ہے کہ اُس سے ایم ایم اے کی بحالی کیلئے مشاورت نہیں کی گئی۔ مختلف میڈیا چینلز سے گفتگو میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کہا ہے کہ چند لوگ ایم ایم اے پر اپنا حق سمجھتے ہیں ، وہ جب چاہتے ہیں اسے معطل کر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں فعال کر دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر چہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کیلئے کاوشوں میں کامیاب نظر آتے ہیں، تاہم جماعت اسلامی کےبغیر اس اتحاد کی بحالی ملکی سیاسی صورتحال پر خاطرخواہ اثرات مرتب نہیں کر سکے گی، کیونکہ ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایم ایم اے میں سب سےزیادہ جماعت اسلامی کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا اور اگر ایم ایم اے نےخیبر پختونخواہ پر حکومت کی تو اس میں بڑا حصہ جماعت اسلامی کا بھی تھا۔