حکومت کی طرف سے ججوں کی بحالی کے نوٹیفکیشن کی واپسی پر غور سے متعلق خبروں پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اور عدالتی حکم نامے کے بعد ملک کے سیاسی اور قانونی حلقوں کے علاوہ عمومی طورپر ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ اور وفاقی حکومت میں ایک بار پھر ماحوں کشیدہ ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ ججوں کی بحالی کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا اقدام آئین کو سبوتاژ کرنے کے متراد ف ہو گا اور ایسا اقدام آئین کی شق چھ کے تحت دستورِ پاکستان سے غداری ہوگا۔
عدالتی فیصلے کے بعد جمعہ کی شام وفاقی وزیر قانون نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں کرے گی اور اُنھوں نے بتایا کہ وزیراعظم گیلانی اتوار کو قوم سے خطاب میں اس صورت حال بات کریں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوری حکومت کے دور میں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے والے اداروں سے تصادم نہیں ہوگا اور وزیراعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسی خبریں بے بنیاد ہیں۔
لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صورت حال اب تک واضح نہیں ہوئی ہے اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دیکھنا یہ ہے وزیراعظم اپنی تقریر میں کیا کہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ ایسی خبروں کے حوالے سے کوئی واضح بات کرتے ہیں توہی بہتر ہوگا ورنہ مایوسی اور بڑھ سکتی ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر عبدالمجید حاجی محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے جمہوری استحقام نہایت ضرور ی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور یہ سب حالات ہی بہتری پر ہی منحصر ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ حکومت ججوں کی بحالی کے نوٹیفکیشن کی واپسی سے متعلق خبروں کی انکوائری کرائے اور نتائج سے سپریم کورٹ کو آگا ہ کرے۔ اب اس مقدمے کی سماعت پیر 18 اکتوبر کو ہوگی ۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ میں دوبارہ سماعت سے قبل تما م تر نظریں وزیراعظم کے قوم سے متوقع خطاب پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔