پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے برما میں روہنگیا نامی اقلیتی مسلمان آبادی کے خلاف تشدد اور ’’منصوبہ بندی کے تحت وحشیانہ نسل کشی‘‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹ کے اجلاس میں جمعرات کو متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قرار داد میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے ان ظالمانہ واقعات سے پاکستان بھر میں صدمے اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
’’پاکستان کی سینیٹ برما کی حکومت سے حالات فوری طور پر معمول پر لانے، مسلمانوں کی جان، مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے تمام تر اقدامات کرنے، اور بے دخل ہونے والے افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کے بعد بلا خوف و خطر زندگی گزارنے کے عمل کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘
پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قرار داد میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ ان نسلی فسادات کی فوری تحقیقات کی جائیں گی اور ’’سفاکانہ اور قابل ملامت‘‘ انسانیت سوز جرائم میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی ہو گی۔
قرار داد کے متن میں اس اُمید کا بھی اظہار کیا ہے کہ برما میں جمہوری نظام کی جانب حالیہ پیش رفت مختلف عقائد کے ماننے والوں کی پُر امن بقا باہمی میں مدد دے گی، اور ملک میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ حاصل ہوگا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ ہفتے برمی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ برمی حکومت یقیناً ان کے سدباب کے لیے ’’تمام ضروری اور مناسب‘‘ اقدامات کر رہی ہے۔
پاکستانی طالبان نے گزشتہ ہفتے برمی مسلمانوں کے خلاف ’’مظالم‘‘کا انتقام لینے کی دھمکی دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں برما کا سفارت خانہ بند کرکے دوطرفہ تعلقات ختم کرنے کا انتباہ کیا تھا۔
’’بصورت دیگر نہ صرف برمی مفادات بلکہ پاکستان میں برما کے حامیوں پر بھی انتقامی حملے کیے جائیں گے۔‘‘
برما میں مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے پیروکاروں اور سرکاری فوج کے اہلکاروں کی پرتشدد کارروائیوں پر پاکستان میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی علم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے بھی مسلمان اقلیت کے خلاف برمی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی تصدیق کی ہے۔
سینیٹ کے اجلاس میں جمعرات کو متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قرار داد میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے ان ظالمانہ واقعات سے پاکستان بھر میں صدمے اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
’’پاکستان کی سینیٹ برما کی حکومت سے حالات فوری طور پر معمول پر لانے، مسلمانوں کی جان، مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے تمام تر اقدامات کرنے، اور بے دخل ہونے والے افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کے بعد بلا خوف و خطر زندگی گزارنے کے عمل کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘
پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قرار داد میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ ان نسلی فسادات کی فوری تحقیقات کی جائیں گی اور ’’سفاکانہ اور قابل ملامت‘‘ انسانیت سوز جرائم میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی ہو گی۔
قرار داد کے متن میں اس اُمید کا بھی اظہار کیا ہے کہ برما میں جمہوری نظام کی جانب حالیہ پیش رفت مختلف عقائد کے ماننے والوں کی پُر امن بقا باہمی میں مدد دے گی، اور ملک میں استحکام اور خوشحالی کو فروغ حاصل ہوگا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ ہفتے برمی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ برمی حکومت یقیناً ان کے سدباب کے لیے ’’تمام ضروری اور مناسب‘‘ اقدامات کر رہی ہے۔
پاکستانی طالبان نے گزشتہ ہفتے برمی مسلمانوں کے خلاف ’’مظالم‘‘کا انتقام لینے کی دھمکی دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں برما کا سفارت خانہ بند کرکے دوطرفہ تعلقات ختم کرنے کا انتباہ کیا تھا۔
’’بصورت دیگر نہ صرف برمی مفادات بلکہ پاکستان میں برما کے حامیوں پر بھی انتقامی حملے کیے جائیں گے۔‘‘
برما میں مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے پیروکاروں اور سرکاری فوج کے اہلکاروں کی پرتشدد کارروائیوں پر پاکستان میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی علم بردار بین الاقوامی تنظیموں نے بھی مسلمان اقلیت کے خلاف برمی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی تصدیق کی ہے۔