اگرچہ ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں انتخابات کب ہوں گے: مقررہ وقت پر، اس سے پہلے یا۔۔۔؟ لیکن، سیاست میں جو گہما گہمی ہے وہ کسی طور انتخابی ماحول سےکم نہیں ہے۔
ہفتے کے روز سیاست کے محاذ پر قابلِ ذکر رپیش رفت مسلم لیگ (ہم خیال) کے ساتھ نواز لیگ کا انتخابی اتحاد ہے، جس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی شامل ہے۔ اِس کے علاوہ، مسلم لیگ نواز نے خوشاب میں حکومت مخالف جلسہ کیا تو وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ کی قیادت میں سندھ اور پنجاب کی سرحد پر پیپلز پارٹی نے بھی ایک بڑےجلسے کا اہتمام کیا جِس کا مقصد اپنی سیاسی طاقت کا اظہار تھا۔
آج ہی کے دن تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے امیر جماعت اسلامی منورحسن سے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات اِس حوالے سے اہم سمجھی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہے مگر وہ نواز لیگ کےساتھ احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے بجائے جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر مائل ہے۔
قائداعظم لیگ کے ہم خیال گروپ کے ساتھ سیٹ ایڈجیسمنٹ سے قبل، سندھ نیشنل فرنٹ کا انضمام بھی نواز لیگ میں ہو چکا ہے۔ مبصرین کے بقول، اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نواز لیگ سیاسی تنہائی کا شکار ہے جیسا کہ ان کے مخالفین ان پر لیبل لگاتے ہیں۔
پارٹی کے راہنما صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ پیش رفت پارٹی کی مقبولیت کی غماز ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم خیال گروپ کے لیے دروازے پہلے بھی کھلے تھے،ان پر مشرف کی باقیات کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
اُن کے بقول، قیادت صرف ان لوگوں کو بغل گیر ہونے کا موقع نہیں دے گی جنہوں نے جنرل مشرف کی ایما پر پارٹی کے دفاتر پر قبضہ کیا اور پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حالات وقت سے پہلے انتخابات کا اشارہ دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود نے وائس آف امریکہ کے پروگرام ان دا نیوز میں گفتکو کرتے ہوئے کہا کہ نواز لیگ کی ’’بھاگ دوڑ‘‘ دراصل تحریک انصاف سے ہی خوف کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا حکومت مخالف تحریک میں نواز لیگ کے ساتھ اس وقت تک اشتراک نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہوں۔ انہوں نے آئی آرآئی کی حالیہ جائزہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انکی جماعت دن بہ دن مقبول ہو رہی ہے اور اس سروے کے نتائج کو انتخابی فتح میں تبدیل کرنے کی پوزیش میں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت کسی پارٹی سے اتحاد کی بات قبل از وقت ہو گی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ان کے رابطے ہیں۔
جماعت اسلامی کے راہنما سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے بتایا کہ نواز لیگ، تحریک انصاف اور ان کی جماعت اس وقت حقیقی اپوزیشن ہے۔ تینوں پارٹیاں اپنے اپنے طور پر حکومت کے خلاف سڑکوں پر مصروف عمل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہیئے تو یہ کہ سب فریق اس مقصد پر اکٹھے ہو جائیں لیکن نواز لیگ کے ساتھ ان کے ماضی کے تجربات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے ایجنڈے کے ساتھ انتخاب میں اترے گی۔ لیکن، سیاست میں تمام دروازے کھلے رہتے ہیں۔ لہذا، کسی پارٹی کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات تو ان کی جماعت کے مولانا فضل الرحمن سے بھی ہو رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے راہنما اورپنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کہا کہ نواز لیگ اور ق لیگ کے ہم خیالوں کا اتحاد ان کے لیے خطرہ ہے نہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ان کے ووٹ بینک کو توڑ سکتے ہیں ۔
ان کے بقول ’’یہ چلے ہوئے کارتوس‘‘ ہیں اور عوام اس وقت صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بارہ مئی کو اوبائڑو میں پیپلز پارٹی کے جسلے میں 10 لاکھ افراد نے شرکت کی جو کہ پارٹی پر عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ آئی آر آئی جیسے اداروں کی سروے رپورٹوں کو نہیں مانتے، کہ ان کے بقول، وہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر تیار کی گئی ہیں، زمینی حقائق اس کے منافی ہیں۔ انہوں نے ایسے امکانات کی بھی تردید کی کہ وزیراعظم گیلانی مستعفی ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات لکھ کر رکھ لیں، گیلانی صاحب کہیں نہیں جا رہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں سپیکرقومی اسمبلی کا فیصلہ اس بارے میں اہم ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو عدالتوں سے انصاف نہیں ملا اور اب بھی وہ ان کے بقول ’’شریف کورٹس‘‘ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید صدیق اور فاروق عادل کے بقول قائداعظم لیگ کے ہم خیال گروپ کے ساتھ اتحاد نواز لیگ کوایک بار پھر ہزارہ ڈویژن میں مضبوط کر سکتا ہے کہ یہ وہ ڈویژن ہے جہاں اسے ایک دور میں اکثریت حاصل رہی ہے، مگر خیبر پختونخواہ کے نام کے معاملے پر لوگوں میں پارٹی کے خلاف ناراضی بڑھی ہے اور پھر تحریک انصاف نے بھی یہاں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ فاروق عادل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا جلسہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا کہ ان کے رہنما دعویٰ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار اِس بات کے امکانات نہیں دیکھتے کہ نواز لیگ اور تحریک انصاف میں کسی طرح کی ایڈجسٹمنٹ ہو جائے۔ البتہ، وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی جو پوزیشن اِس وقت ہے اسکے تحت وہ پی ٹی آئی یا نون لیگ کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے۔