حکومت مخالف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان گزشتہ 26 روز سے اسلام آباد میں دھرنا دے کر وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر مُصر ہیں۔
لیکن حکومت اور پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے پر اصرار کر رہی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو بھی سیاسی صورتحال پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کی جب کہ مخالفین سے بات چیت کے لیےبنائی گئی کمیٹیوں نے بھی اپنا کام جاری رکھا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان روزانہ شام ڈھلے اپنے کارکنوں سے خطاب میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی سے برسراقتدار آئی ہے اس لیے وزیراعظم کا مستعفی ہونا از حد ضروری ہے۔
دوسری طرف کینیڈا سے آئے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ طرز حکومت اور حکمرانوں کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کے مطالبات میں بھی وزیراعظم کا استعفیٰ شامل ہے۔
تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی میں شامل وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بدھ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو بتایا کہ عمران خان کی جماعت کے چھ میں سے پانچ مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جب کہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے کو پارلیمان متفقہ طور پر مسترد کر چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مانے گئے مطالبات میں انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تنظیم نو شامل ہیں اور چھ میں سے تین مطالبات مستقبل کے جمہوری نظام سے متعلق ہیں جن کی ان کے بقول کسی بھی سیاسی جماعت نے مخالفت نہیں کی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ مخالفین وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر لچک نہیں دکھا رہے جس کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر دھرنا دینے والی جماعتوں سے کہا کہ وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا احتجاج ختم کریں۔
"وزیراعظم اور پارلیمانی لیڈرز کے جو فیصلے ہیں کمیٹی پوری کوشش کر رہی ہے خلوص نیت کے ساتھ اس (معاملے) کو افہام و تفہیم سے حل کریں لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ تمام ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت پر رحم کریں، پاکستان کے نقصانات کو کم ہونے دیں۔"
ادھر طاہر القادری کی جماعت سے مذاکرات کرنے والی کمیٹٰی کے رکن وفاقی وزیر احسن اقبال نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان عوامی تحریک کے دس میں سے چھ نقاط پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے لیکن انھوں نے بھی وزیراعظم کے مستعفی ہونے کو خارج از امکان قرار دیا۔