ملک بھر میں آج سے رواں سال کی پہلی انسدادِ پولیو مہم کا آغاز ہو رہا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں کی طرح 2018ء میں بھی پولیو وائرس پر مکمل طور قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور سال بھر میں پولیو کے 12 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت باجوڑ ایجنسی میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
افغانستان سے متصل قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں مزید دو بچوں میں پولیو وائرس کی تشخیص ہونے کے بعد رواں سال باجوڑ ایجنسی میں پولیو کیسز کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔
انسداد پولیو مہم سے وابستہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق مجموعی طور پر 12 کیسز میں سے اکثریت کا تعلق باجوڑ سے ہے جب کہ بلوچستان کے ضلع ڈکی میں تین، کراچی، چارسدہ، خیبر اور لکی مروت میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ اور پشین سمیت مختلف علاقوں کے سیوریج میں پولیو وائرس پایا گیا تھا جس کے بعد ملکی سطح پر پولیو مہم چلائی جا رہی ہے۔
رواں سال کی پہلی سہ روز انسداد پولیو مہم کے دوران خیبر پختونخوا میں پانچ سال سے کم لگ بھگ 59 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوائے جائیں گے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس مہم میں 27300 اہلکار اور رضا کار حصہ لے رہے ہیں۔
باجوڑ میں اتنے کیسز کیوں؟
خیبر پختونخوا کا علاقہ باجوڑ افغانستان کی سرحد سے متصل ہے۔
باجوڑ میں انسداد پولیو مہم کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دراصل اب بھی زیادہ تر لوگ بالخصوص دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے والدین پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو اور دیگر امراض سے بچاؤ کے قطرے پلانے اور ٹیکے لگوانے سے انکاری ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر نقل مکانی کے باعث بھی بہت زیادہ بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیو کے جراثیم ایک جگہ سے دوسری جگہ باآسانی منتقل ہو جاتے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے باعث زیادہ تر بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے محروم رہ گئے تھے بلکہ انسداد پولیو مہم میں حصہ لینے والے محکمہ صحت کے اہلکاروں، رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر ہلاکت خیز حملے بھی ہوئے تھے۔
انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کی دھمکیوں اور غلط پروپیگنڈوں کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں والدین ابھی تک بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکاری ہیں۔
محکمہ صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بشمول سابق قبائلی اضلاع میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے عسکریت پسندی اور فوجی کارروائیوں کے باعث نقل مکانی کی تھی جبکہ اس صوبے کی سرحدوں پر افغانستان کے ساتھ لوگوں کا آنا جانا عرصہ دراز سے جاری ہے۔
پولیو کو کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات
حکومت نے ملک میں پولیو ایمرجنسی عائد کر رکھی ہے لیکن حکومتی اقدامات اور کاوشوں کے باوجود ابھی تک پولیو کے وائرس پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انسداد پولیو مہم کے لئے وزیراعظم کے فوکل پرسن بابر بن عطاء نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے والدین کی تعداد میں کمی آ رہی ہے جو بچوں کو پولیو ویکسین نہیں پلانا چاہتے مگر پھر بھی مختلف وجوہات کی بنیاد پر بہت زیادہ بچے پولیو کے قطرے پلوانے سے رہ جاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جن جن بنیادوں پر والدین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کر رہے ہیں ان کو راضی کرنے کیلئے اقدامات اور حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔
بابر بن عطا کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر انکاری والدین کو منوانے کیلئے علماء اور مذہبی حلقوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں جب کہ اگر پینے کے پانی، سڑک اور گلی کا مسئلہ ہے تو اسے انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔