رسائی کے لنکس

پولیو کے خاتمہ کے لیے موثر اور ہنگامی کوششوں کی ضرورت


نو سال سے کم عمر کے بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے
نو سال سے کم عمر کے بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے

پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ واقعات فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں سامنے آتے ہیں۔ گذشتہ سال فاٹا میں74 ، خیبر پختونخواہ میں 24 ،سندھ میں 25 ،بلوچستان میں 12 اور پنجاب میں سات پولیو کے واقعات کی تصدیق ہوئی۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے پروگرام کو موثر بنا کر اور لوگوں کو مسلسل آگاہ کرکے ہی اس موذی مرض سے نجات ممکن ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کے لیے بڑے پیمانے پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود ملک بھر میں مسلسل پولیو کے نئے واقعات کا منظرِعام پر آنا جہاں حکومتِ پاکستان کے لیے پریشان کن ہے وہاں بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ان واقعات میں اضافہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اتوار کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں 18 کیسز کے مقابلے میں رواں سال اب تک 37 واقعات کا سامنے آنا تشویش کا باعث ہے اس لئے پولیو کے خاتمے کے لیے تشکیل دیے گئے قومی ہنگامی منصوبے 2011ء پر عمل درآمد کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے دو ادارے عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے اعلی عہدے داروں نے پاکستان میں قومی سطح پر پولیو کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لینے کے لئے ملک کے اقتصادی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیوسے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کا دورہ کیا تاکہ جسمانی طور پر معذور کردینے والی اس مہلک بیماری کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا از سر نو جائزہ لیا جا سکے ۔

اس موقع پر عالمی تنظیم کے عہدے داروں نے کہا کہ پاکستان میں پولیوکی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ اکثر علاقوں تک پولیو مہم کی رسائی میں مشکلات ، لوگوں کا پولیو کے قطروں کی اہمیت سے واقف نہ ہونا اور غربت کے باعث خوراک کی قلت و خرابی صحت ہے۔ ایسے بچوں میں قوت مدافعت بڑھانے کے لیے متعدد بار موثر ویکسینیشن کی ضرورت ہے۔

پولیو کے خاتمہ کے لیے موثر اور ہنگامی کوششوں کی ضرورت
پولیو کے خاتمہ کے لیے موثر اور ہنگامی کوششوں کی ضرورت

واضح رہے کہ پاکستان کا شمار ان چار ممالک میں ہوتا ہے جہاں مسلسل کوششوں کے باجود پولیو کا خاتمہ تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ ملک میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1995ء میں ہوا جس کا مقصد پاکستان کوسال 2000 ء تک پولیو سے پاک کر دینا تھا مگر یہ ہدف ٹلتے ٹلتے 2011 ء تک آ پہنچا ہے اور پاکستان ابھی تک پولیو کی صفر سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے ۔ پاکستان میں1988ء کے دوران پولیو کے پندرہ ہزار کیس سامنے آئے تھے جبکہ 2004 میں یہ تعداد گھٹ کر اکیاون ہو گئی تھی ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2005ء میں ملک بھر میں اٹھائیس بچے پولیو کا شکار ہوئے اور 2006ء میں یہ تعداد انتالیس تھی ۔ 2009 ء میں نواسی واقعات کی تصدیق ہوئی۔ اگرچہ گذشتہ سال جولائی تک ملک میں پولیو کے 27 واقعات سامنے آئے لیکن پاکستان میں آنے والے دنیا کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد یہ صورتحال مزید ابتر ہوگئی اور سال کے اختتام پر یہ تعداد 144 تک جا پہنچی۔

پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ واقعات فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں سامنے آتے ہیں۔ گذشتہ سال فاٹا میں74 ، خیبر پختونخواہ میں 24 ،سندھ میں 25 ،بلوچستان میں 12 اور پنجاب میں سات پولیو کے واقعات کی تصدیق ہوئی۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے پروگرام کو موثر بنا کر اور لوگوں کو مسلسل آگاہ کرکے ہی اس موذی مرض سے نجات ممکن ہے۔

عالمی تنظیموں کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ کراچی کے پولیو سے متاثرہ اور زیادہ خطرات رکھنے والے علاقوں کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ پولیو کے خلاف جنگ کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت اور اہمیت واضح ہو۔ ”مل کر کام کرکے ہی ہم پاکستان میں بچوں کی زندگیاں بہتر بنا سکتے ہیں۔“ پولیو کے خاتمے کی عالمی مہم کے تحت حکومت پاکستان اور بین الاقوامی تنظیمیں مشترکہ طور پر 2012 ء تک پاکستان سے ہمیشہ کے لیے اس مہلک مرض کے خاتمے کا عزم رکھتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG