وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی نعیم الحق نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان جلد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کسی بھی پاکستانی حکومتی سربراہ کی طالبان کے ساتھ یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہو گی۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد خاصے سرگرم ہیں، اس ضمن میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اب تک طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے سات دور ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق امریکہ اور طالبان کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اور جلد بین الافغان مذاکرات بھی شروع ہوں گے۔ اس دوران پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ طالبان وفد کی متوقع ملاقات کو بھی نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کے دیرینہ مسئلے اور امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستان نے چند روز قبل مری کے پرفضا مقام بھوربھن میں ایک افغان کانفرنس کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں افغانستان کی سیاسی قیادت سمیت لگ بھگ 57 مندوبین نے شرکت کی تھی۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ طالبان وفد کی عمران خان سے ملاقات میں افغان حکومت کی رضامندی بھی شامل ہے۔
ایک افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملاقات کے بعد پاکستان افغان حکومت کو اس ملاقات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرے گا۔
عمران خان اور طالبان قیادت کی ملاقات کی خبر سب سے پہلے پاکستان کے سرکاری میڈیا نے دی تھی، ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کا حوالہ دیا گیا تھا۔
نعیم الحق نے کہا تھا کہ افغان تنازعہ کے پرامن حل کے لیے عمران خان طالبان رہنماؤں سے جلد ملاقات کریں گے۔ تاہم، اس ملاقات کے مقام کا تاحال تعین نہیں ہو سکا۔
رواں سال فروری میں بھی عمران خان اور طالبان قیادت کی ملاقات کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ تاہم، افغان حکومت کے شدید احتجاج کے بعد یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی تھی۔
نعیم الحق کا مزید کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بہتر ہوئی ہے، اور یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔
نعیم الحق کے بیان کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے 22 جولائی کو واشنگٹن میں عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کا بھی اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کار 22 جولائی کو عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان پہلی ملاقات کو پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔
افغان امن مذاکرات جاری
امریکہ کی مذاکراتی ٹیم اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا ساتواں دور جاری ہے۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور تنازعہ کے خاتمے کے لیے سمجھوتے کے ڈرافٹ پر 80 سے 90 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔
قطر اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں بین الافغان کانفرنس بھی سات اور آٹھ جولائی کو دوحہ میں ہو گی، جس میں شرکت کے لیے افغان مندوبین دوحہ پہنچ رہے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان سمیم عارف نے کہا کہ کابل سے دوحہ جانے والے 64 رکنی وفد میں کئی سرکاری عہدیدار بھی شامل ہوں گے۔ تاہم، انھوں نے وضاحت کی کہ یہ عہدیدار ذاتی حیثیت میں اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
خیال رہے کہ طالبان اب تک افغان حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں، طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔
'افغان حکومت کو پیش رفت سے آگاہ کرنا ضروری ہے'
پاکستان میں افغانستان کے سفیر عاطف مشعال نے کہا ہے کہ افغان امن عمل کی پیش رفت سے افغانستان کو آگاہ رکھنا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عاطف مشعال نے کہا کہ ’'جب تک مذاکرات کا کوئی واضح ایجنڈا نہیں طے پا جاتا یا افغان حکومت اس میں شامل نہیں ہوتی اس وقت تک مذاکراتی عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔'‘
آئندہ ہفتے ہونے والے دوحہ اجلاس میں خواتین، سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن اور افغان صحافیوں کے وفود بھی شامل ہوں گے۔
افغان ہائی پیس کونسل کے نائب سربراہ حاجی دین محمد کا کہنا ہے کہ کونسل کے چار عہدیدار اور قومی سلامتی کے سابق مشیر ڈاکٹر رنگین سپانتا اور سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی بھی دوحہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اس اجلاس میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم، انھوں نے قطر اور جرمنی کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے افغان تصفیے کے حل میں مدد ملے گی۔