وزیراعظم نواز شریف نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی ’فاٹا‘ میں اصلاحات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی کا قیام قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکین پارلیمان کے پر زور مطالبے کے بعد عمل میں لایا گیا۔
مذکورہ کمیٹی تمام متعلقہ اداروں اور افراد سے مشاورت کے بعد فاٹا کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کرے گی۔
آئین پاکستان کے مطابق فاٹا ملک کا حصہ ہے مگر اس کے انتظامی اختیارات صدر پاکستان کے پاس ہیں جو گورنر خیبر پختونخوا اور مقامی سرکاری عہدیداروں کے ذریعے وہاں کا انتظام چلاتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں نو آبادیاتی زمانے کا ایک علیحدہ قانون فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن رائج ہے، تاہم گزشتہ دور حکومت میں اس نظام میں اصلاحات کی گئی تھیں۔
قبائلی علاقوں سے رکن قومی اسمبلی سید غازی گلاب جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فاٹا کے عوام کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے روزمرہ انتظامی امور میں علاقے کے عوام کی کوئی شمولیت نہیں۔
’’فاٹا کا چیف ایگزیکٹو گورنر خیبر پختونخوا ہوتا ہے مگر اسے فاٹا کا ایک ووٹ بھی نہیں ملا ہوتا نہ وہ لے سکتا۔ جو کام بھی فاٹا میں ہوتا اس کے بارے میں فاٹا نمائندوں کو بھی نہیں پتا ہوتا اور عوام کو تو بالکل نہیں پتا ہوتا۔ یہاں سب کچھ بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے جن کے باس چیف ایگزیکٹیو ہیں جو کہ خود ایک طرح سے بیورکریسی کا حصہ ہیں کیونکہ وہ ایک غیر منتخب عہدیدار ہیں۔ یہ سسٹم غلط ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز کانفرنس میں بھی فاٹا میں اصلاحات کے لیے مجوزہ 22 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی گئی جس کے تحت فاٹا کے عوام کو ملک کے باقی شہریوں کے طرح نمائندہ حکومت اور انصاف تک رسائی حاصل ہوگی۔
سید غازی گلاب جمال نے اصلاحاتی کمیٹی کے قیام پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ارکان اعلیٰ سطحی عہدیدار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے حکمنامے کے مطابق اس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کریں گے جبکہ اس کے ارکان میں گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب خان عباسی، وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ، مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ اور رکن قومی اسمبلی زاہد حامد شامل ہیں۔
سید غازی گلاب جمال کا کہنا تھا کہ علاقے کے امور میں فاٹا کے عوام کی شرکت سے ان کی بہت سی شکایات دور ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی اصلاحات تجویز کی جائیں وہ مرحلہ وار نافذ کی جانی چائیں تاکہ وہاں کے عوام کو مزید کوئی تکلیف نہ پہنچے جو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی شدت پسند گروہوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے تھے جن کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ برس جون سے پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے جس کے بعد خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے خیبر ایجنسی میں بھی کارروائیاں کی گئیں۔
علاقے میں شدت پسندوں کی کارروائیوں اور پاکستانی فوج کے جاری آپریشن کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں نہ لانے کے باعث وہاں شدت پسند عناصر اور جرائم پیشہ گروہوں کو اپنے قدم جمانے میں مدد ملی ہے اور علاقے میں شدت پسندی ختم کرنے کے لیے وہاں سیاسی و انتظامی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔