پاکستان میں طالبان اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان طے شدہ ملاقات منگل کو خراب موسم کی وجہ سے نہیں ہو سکی ہے۔
طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ سے ملنے قبائلی علاقے میں جانا تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ براہ راست ملاقات کے مقام پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے اور اب یہ براہ راست ملاقات بھی ایک دو روز میں ہو جائے گی۔
رواں ماہ ہی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ایک ماہ کے لیے یکطرفہ فائر بندی کے بعد مذاکراتی عمل میں پیش رفت ہوئی اور گزشتہ ہفتے ہی حکومت نے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی تھی جو طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ابھی تک طالبان کی طرف سے کسی بھی طرح کی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ ان کے بقول طالبان کی طرف سے "غیر جنگجو قیدیوں" کی فہرست حکومت کو فراہم کر دی گئی ہے اور اگر اس پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو یہ مذاکراتی عمل کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سرکاری کمیٹی سے مذاکرات کے لیے طالبان کی طرف سے قاری شکیل، مولوی ذاکر، اعظم طارق اور مولوی بشیر کے نام سامنے آئے ہیں۔
نواز شریف نے گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کو ترجیح قرار دیتے ہوئے کوششیں شروع کی تھیں لیکن رواں سال کے اوائل تک اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔
جنوری کے اواخر میں حکومت نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے طالبان کی طرف سے نامزد کردہ شخصیات کے ساتھ بات چیت کر کے اس عمل کی راہ ہموار کی۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے طالبان شوریٰ سے ملنے قبائلی علاقے میں جانا تھا لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ براہ راست ملاقات کے مقام پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے اور اب یہ براہ راست ملاقات بھی ایک دو روز میں ہو جائے گی۔
رواں ماہ ہی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ایک ماہ کے لیے یکطرفہ فائر بندی کے بعد مذاکراتی عمل میں پیش رفت ہوئی اور گزشتہ ہفتے ہی حکومت نے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی تھی جو طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ابھی تک طالبان کی طرف سے کسی بھی طرح کی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ ان کے بقول طالبان کی طرف سے "غیر جنگجو قیدیوں" کی فہرست حکومت کو فراہم کر دی گئی ہے اور اگر اس پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو یہ مذاکراتی عمل کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سرکاری کمیٹی سے مذاکرات کے لیے طالبان کی طرف سے قاری شکیل، مولوی ذاکر، اعظم طارق اور مولوی بشیر کے نام سامنے آئے ہیں۔
نواز شریف نے گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کو ترجیح قرار دیتے ہوئے کوششیں شروع کی تھیں لیکن رواں سال کے اوائل تک اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔
جنوری کے اواخر میں حکومت نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے طالبان کی طرف سے نامزد کردہ شخصیات کے ساتھ بات چیت کر کے اس عمل کی راہ ہموار کی۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔