پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے اُسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ’’غداری‘‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 33 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
باڑہ تحصیل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد ناصر خان نے بتایا کہ مقدمے کی کارروائی کے اختتام پر بدھ کو سنائے گئے فیصلے میں شکیل آفریدی کو 320,000 روپے (تقریباً 3,500 ڈالر) جرمانہ بھی کیا گیا ہے اور اس رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں اُنھیں ساڑھے تین برس مزید قید میں رہنا ہو گا۔
شکیل آفریدی کے خلاف غداری، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر ملکیوں سے رابطوں کے الزامات پر گزشتہ تین ماہ سے مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اب شکیل آفریدی کو پشاور جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
شکیل آفریدی نے القاعدہ کے مفرور رہنما کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کہنے پر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے اور ہیپٹائٹس کے حفاظتی ٹیکوں کی جعلی مہم چلائی تھی، جس دوران بن لادن کے اہل خانہ کے ’ڈی این اے‘ نمونے حاصل کیے گئے۔
دو مئی 2011ء کو بن لادن کے خلاف امریکی اسپیشل فورسز کی خفیہ کارروائی کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے شکیل آفریدی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
شکیل آفریدی پشاور کے سرکاری اسپتال ’خیبر میڈیکل کمپلیکس‘ سے منسلک تھے، لیکن اُن کی گرفتاری کی اطلاعات کے بعد صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے اُنھیں معطل اور پھر فروری میں ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔
بن لادن کی امریکی فوجی آپریشن میں ہلاکت اور اس کارروائی کے محرکات کے تعین کے لیے قائم پاکستانی عدالتی کمیشن نے شکیل آفریدی کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کر کے سزا دینے کی سفارش کی تھی۔
امریکی حکام بشمول وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شکیل آفریدی کی رہائی کے حق میں بیانات دیتے آئے ہیں کیوں کہ اُن کے بقول پاکستانی ڈاکٹر نے جو کچھ کیا وہ دونوں ممالک کے مفاد میں تھا۔
امریکی کانگریس کے ایک رکن نے شکیل آفریدی کو امریکی شہریت دینے کی تجویز بھی پیش کی تھی، جب کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق بن لادن کے خلاف آپریشن میں اُن کے کردار کا اعتراف کرنے کے لیے انھیں امریکی کانگریس کی طرف سے امریکہ کے اعلیٰ ترین سول اعزاز کے لیے نامزد کیا جائے گا۔