اسلامی ملکوں کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم نے کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی خواہاں ہے اور اس بارے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم "او آئی سی" کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین نے پیر کو اسلام آباد میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ تنظیم نے بھارت سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال جاننے کے لیے وہاں تک رسائی کا مطالبہ کیا تھا لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے نئی دہلی نے اسے مسترد کر دیا۔
کشمیر شروع ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع چلا آرہا ہے جس کا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بھارت کے زیر انتظام ہے۔ نئی دہلی کشمیر پر ملکیت کا دعویدار ہے جب کہ اسلام آباد کا استدلال کے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق یا علیحدہ خودمختار ریاست کے قیام کے فیصلے کا اختیار وہاں کے عوام کے پاس ہے اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرارداد کے تحت کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جانا چاہیے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔
بھارتی کشمیر میں اتوار کو حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان تصادم سے آٹھ شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے اور ان تازہ واقعات پر بھی پاکستانی مشیر خارجہ کی طرف سے شدید الفاظ میں مذمت کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر عالمی برادری سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بھارت، پاکستان کی تنقید اور مذمت کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتا آیا ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پر مبنی واقعات اور مقدس شخصیات کی توہین کو روکنے کے لیے حکمت عملی پر اتفاق کیا گیا۔
"ہم نے مسلم دنیا کے اتحاد و یگانگت کی ضرورت پر اتفاق کیا، ہمیں اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز واقعات اور گستاخانہ مواد کی خاص طور پر سوشل میڈیا پر اشاعت کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔"
سیکرٹری جنرل یوسف احمد کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور اس بنا پر مسلمانوں سے منافرت کا اظہار کسی صورت درست نہیں ہے۔
"ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامو فوبیا انتہا پسندی کی ہی ایک اور شکل ہے۔ دہشت گردی جس کی ہم مذمت کرتے ہیں یہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتی۔"
شام میں گزشتہ چھ سال سے جاری تنازع کے حل کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ تنظیم اس مسئلے کے سیاسی حل کی خواہاں ہے۔