پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے مقامی لوگ سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر دوسرے مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نقل مکانی پچھلے چند روز سے جاری ہے اور اب تک سینکڑوں افراد قبائلی علاقے سے ملحقہ خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں منتقل ہو چکے ہیں۔
میر علی سے تعلق رکھنے والے اللہ نور داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر لوگ ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوئے ہیں۔
" لوگوں خوفزدہ ہیں اور وہ نقل مکانی کر رہے ہیں ان لوگوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘‘
نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات اور ان کے لیے کیے جانے والے سرکاری انتظامات کے بارے میں متعلقہ سرکاری ادارے کے عہدیداروں کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
تاہم ایک عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ بنوں میں ایک عارضی کیمپ قائم کیا گیا ہے لیکن وہاں رکنے کی بجائے لوگ دیگر علاقوں کی طرف سے جا رہے ہیں۔
حکومت کے ساتھ شدت پسندوں کے مذاکرات میں تعطل آنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں تشدد کی کارروائیاں دیکھنے میں آ چکی ہیں جن میں سب سے مہلک حملہ کراچی کے ہوائی اڈے پر گزشتہ اتوار کیا گیا جس میں شدت پسندوں سمیت 35 افراد ہلاک ہوئے۔
سکیورٹی فورسز کی طرف سے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کے دوران درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
گزشتہ ماہ ہی طالبان کے ایک اہم کمانڈر حافظ گل بہادر کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لوگوں کو دس جون تک محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کی ہدایت کی گئی تھی۔
ادھر افغان حکام سے منسوب یہ خبر سامنے آئی کہ پاکستانی علاقے افغان صوبہ خوست میں لگ بھگ تین سو خاندان نقل مکانی کر کے پہنچے ہیں۔
تاہم پاکستان کے قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اس سے قبل بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لوگ امن و امان کی خراب صورتحال اور وہاں شدت پسندوں اور فوج کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے مختلف علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نقل مکانی پچھلے چند روز سے جاری ہے اور اب تک سینکڑوں افراد قبائلی علاقے سے ملحقہ خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں منتقل ہو چکے ہیں۔
میر علی سے تعلق رکھنے والے اللہ نور داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر لوگ ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوئے ہیں۔
" لوگوں خوفزدہ ہیں اور وہ نقل مکانی کر رہے ہیں ان لوگوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘‘
نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات اور ان کے لیے کیے جانے والے سرکاری انتظامات کے بارے میں متعلقہ سرکاری ادارے کے عہدیداروں کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
تاہم ایک عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ بنوں میں ایک عارضی کیمپ قائم کیا گیا ہے لیکن وہاں رکنے کی بجائے لوگ دیگر علاقوں کی طرف سے جا رہے ہیں۔
حکومت کے ساتھ شدت پسندوں کے مذاکرات میں تعطل آنے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں تشدد کی کارروائیاں دیکھنے میں آ چکی ہیں جن میں سب سے مہلک حملہ کراچی کے ہوائی اڈے پر گزشتہ اتوار کیا گیا جس میں شدت پسندوں سمیت 35 افراد ہلاک ہوئے۔
سکیورٹی فورسز کی طرف سے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کے دوران درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
گزشتہ ماہ ہی طالبان کے ایک اہم کمانڈر حافظ گل بہادر کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لوگوں کو دس جون تک محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کی ہدایت کی گئی تھی۔
ادھر افغان حکام سے منسوب یہ خبر سامنے آئی کہ پاکستانی علاقے افغان صوبہ خوست میں لگ بھگ تین سو خاندان نقل مکانی کر کے پہنچے ہیں۔
تاہم پاکستان کے قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اس سے قبل بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لوگ امن و امان کی خراب صورتحال اور وہاں شدت پسندوں اور فوج کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے مختلف علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔