پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حکام نے تین روز کے لیے کرفیو میں نرمی کی اور اس دوران وہاں کی مقامی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا کہا ہے۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ اتوار کو یہاں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
اس آپریشن سے قبل ہی مقامی لوگ شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے علاقے سے منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں کرفیو کے نفاذ کی وجہ سے ان کی نقل مکانی ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔
قبائلی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں تین روز تک صبح پانچ بجے سے شام سات بجے تک کرفیو میں نرمی ہو گی جس دوران بدھ کو میر علی اور رزمک کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا کہا گیا ہے۔
جمعرات کو میران شاہ اور غلام خان جب کہ جمعہ کو دتہ خیل کے علاقوں سے مقامی آبادی محفوظ مقامات کی طرف سے منتقل ہو سکے گی۔
خیبر پختونخواہ کے گورنر مہتاب احمد خان نے تمام متعلقہ اداروں کو نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے عارضی رہائش اور دیگر ضروریات مہیا کرنے کے اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے "فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی" کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان سے لوگ گزشتہ ماہ کے اواخر ہی سے نکلنا شروع ہو گئے تھے جن کے اندراج اور انھیں سہولتیں فراہم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔
’’62 ہزار لوگ ابھی تک ہم نے رجسٹر کیے ہیں، سید گئی چیک پوسٹ کے قریب ان کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے اور باران ڈیم کے پاس ان لوگوں کے لیے کیمپس لگائے گئے ہیں، 250 خیمے لگائے جا چکے ہیں اور مزید ضروریات زندگی بھی فراہم کرنے کے لیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کو پولیو کے قطرے بھی پلائے جا رہے ہیں اور ان کو طبی سہولت کے ساتھ ساتھ ان کے راشن کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔
تاہم ارشد خان کہنا تھا کہ اندراج کیے جانے والے افراد میں سے کوئی بھی ان کیمپوں میں نہیں آیا۔
حکام نے ان کیمپوں میں بجلی و پانی کے علاوہ خوراک اور طبی سہولتیں بھی مہیا کر رکھی ہیں لیکن ذرائع کے مطابق نقل مکانی کرنے والے اکثر لوگ اپنے عزیز رشتے داروں یا پھر بندوبستی علاقوں میں کرائے کے گھروں میں منتقل ہوئے ہیں اور کیمپوں میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو کہ گھروں کے کرائے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے یا پھر انھیں شہری علاقوں میں جگہ نہیں ملی۔
پاکستان کے بعض دوسرے قبائلی علاقوں سے بھی ماضی میں لوگ نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں آتے رہیں جن میں سے اکثریت اپنے علاقوں کو واپس جا چکی ہے۔
وفاقی حکومت کے عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہر ممکن مدد اور انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں گی۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ اتوار کو یہاں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
اس آپریشن سے قبل ہی مقامی لوگ شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے علاقے سے منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں کرفیو کے نفاذ کی وجہ سے ان کی نقل مکانی ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔
قبائلی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں تین روز تک صبح پانچ بجے سے شام سات بجے تک کرفیو میں نرمی ہو گی جس دوران بدھ کو میر علی اور رزمک کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا کہا گیا ہے۔
جمعرات کو میران شاہ اور غلام خان جب کہ جمعہ کو دتہ خیل کے علاقوں سے مقامی آبادی محفوظ مقامات کی طرف سے منتقل ہو سکے گی۔
خیبر پختونخواہ کے گورنر مہتاب احمد خان نے تمام متعلقہ اداروں کو نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے عارضی رہائش اور دیگر ضروریات مہیا کرنے کے اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے "فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی" کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان سے لوگ گزشتہ ماہ کے اواخر ہی سے نکلنا شروع ہو گئے تھے جن کے اندراج اور انھیں سہولتیں فراہم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔
’’62 ہزار لوگ ابھی تک ہم نے رجسٹر کیے ہیں، سید گئی چیک پوسٹ کے قریب ان کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے اور باران ڈیم کے پاس ان لوگوں کے لیے کیمپس لگائے گئے ہیں، 250 خیمے لگائے جا چکے ہیں اور مزید ضروریات زندگی بھی فراہم کرنے کے لیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کو پولیو کے قطرے بھی پلائے جا رہے ہیں اور ان کو طبی سہولت کے ساتھ ساتھ ان کے راشن کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔
تاہم ارشد خان کہنا تھا کہ اندراج کیے جانے والے افراد میں سے کوئی بھی ان کیمپوں میں نہیں آیا۔
حکام نے ان کیمپوں میں بجلی و پانی کے علاوہ خوراک اور طبی سہولتیں بھی مہیا کر رکھی ہیں لیکن ذرائع کے مطابق نقل مکانی کرنے والے اکثر لوگ اپنے عزیز رشتے داروں یا پھر بندوبستی علاقوں میں کرائے کے گھروں میں منتقل ہوئے ہیں اور کیمپوں میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو کہ گھروں کے کرائے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے یا پھر انھیں شہری علاقوں میں جگہ نہیں ملی۔
پاکستان کے بعض دوسرے قبائلی علاقوں سے بھی ماضی میں لوگ نقل مکانی کر کے خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں آتے رہیں جن میں سے اکثریت اپنے علاقوں کو واپس جا چکی ہے۔
وفاقی حکومت کے عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہر ممکن مدد اور انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں گی۔