اسلام آباد —
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے چھ خواتین سمیت اپنے سات اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بدھ کو اپنی فلاحی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔
صوابی میں سپورٹ ود ورکنگ سلوشن نامی غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام ایک تعلیمی ادارے سے منسلک پانچ خواتین اساتذہ کے علاوہ تنظیم کی ایک خاتون ہلیتھ ورکر اور ادارے کے ایک مرد ملازم کو منگل کی دوپہر گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے مقامی پولیس نے چار رکنی ٹیم تشکیل دی ہے۔
تاہم پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ جاوید اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فلاحی کاموں میں مصروف اہلکاروں پر حملے کے بعد ان کے ادارے نے اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔
’’اگر سکیورٹی ایجنسیاں (شدت پسندوں کا قلعہ قمع کرتی ہیں تو ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے۔‘‘
جاوید اختر نے بتایا کہ سپورٹ ود ورکنگ سولیوشن کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم 1992 میں قائم کی گئی تھی اور یہ تنظیم تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس تنظیم کی زیادہ تر ملازمین خواتین ہیں جو اپنی ساتھی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد خوف ہراس کا شکار ہیں۔
’’جو ہمارا فوکس ہے وہ تعلیم اور بنیادی تعلیم پر ہے اس لیے ہمیں خواتین ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی میں منگل کی دوپہر موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے غیر سرکاری تنظیم کی گاڑی پر اس وقت خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے خواتین سمیت سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔
ہلاک ہونے والے تمام اہلکاروں کی بدھ کو صوابی میں نمازہ جنازہ ادا کر دی گئی۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین سمیت دیگر عہدیداروں نے اس حملے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں کہا تھا کہ ایسے پرتشدد حملوں کا مقصد فلاحی کاموں میں مصروف رضاکاروں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران فلاحی کاموں سے وابستہ افراد پر ہلاکت خیز حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کراچی اور خیبرپختونخواہ میں انسداد پولیو مہم سے منسلک رضاکار خواتین کو بھی نامعلوم حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جس کے بعد ملک میں پولیو کے خلاف کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں نے بھی ملک میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔
صوابی میں سپورٹ ود ورکنگ سلوشن نامی غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام ایک تعلیمی ادارے سے منسلک پانچ خواتین اساتذہ کے علاوہ تنظیم کی ایک خاتون ہلیتھ ورکر اور ادارے کے ایک مرد ملازم کو منگل کی دوپہر گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے مقامی پولیس نے چار رکنی ٹیم تشکیل دی ہے۔
تاہم پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ جاوید اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فلاحی کاموں میں مصروف اہلکاروں پر حملے کے بعد ان کے ادارے نے اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔
’’اگر سکیورٹی ایجنسیاں (شدت پسندوں کا قلعہ قمع کرتی ہیں تو ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے۔‘‘
جاوید اختر نے بتایا کہ سپورٹ ود ورکنگ سولیوشن کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم 1992 میں قائم کی گئی تھی اور یہ تنظیم تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس تنظیم کی زیادہ تر ملازمین خواتین ہیں جو اپنی ساتھی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد خوف ہراس کا شکار ہیں۔
’’جو ہمارا فوکس ہے وہ تعلیم اور بنیادی تعلیم پر ہے اس لیے ہمیں خواتین ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی میں منگل کی دوپہر موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے غیر سرکاری تنظیم کی گاڑی پر اس وقت خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے خواتین سمیت سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔
ہلاک ہونے والے تمام اہلکاروں کی بدھ کو صوابی میں نمازہ جنازہ ادا کر دی گئی۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین سمیت دیگر عہدیداروں نے اس حملے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں کہا تھا کہ ایسے پرتشدد حملوں کا مقصد فلاحی کاموں میں مصروف رضاکاروں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔
پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران فلاحی کاموں سے وابستہ افراد پر ہلاکت خیز حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ گزشتہ ماہ کراچی اور خیبرپختونخواہ میں انسداد پولیو مہم سے منسلک رضاکار خواتین کو بھی نامعلوم حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جس کے بعد ملک میں پولیو کے خلاف کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں نے بھی ملک میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔