اسلام آباد —
پاکستان میں کرائے کے بجلی گھروں کے معاہدوں میں بدعنوانی سے متعلق معاملات کی تحقیقات کرنے والے ایک تفتیشی افسر کامران فیصل وفاقی دارلحکومت میں اپنی رہائش گاہ پر جمعہ کو مردہ پائے گئے۔
کامران فیصل قومی احتساب بیورو ’نیب‘ میں اسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور کرائے کے بجلی گھروں یا رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر 15 افراد کے خلاف تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ بن امین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ کامران فیصل کی لاش ان کے کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ بظاہر یہ خودکشی کا معاملہ لگتا ہے لیکن اُن کے بقول حتمی طور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا۔
کامران فیصل کا تعلق پنجاب کے علاقے میاں چنوں سے تھا اور وہ اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ میں مقیم تھے۔ کامران کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ رینٹل پاور کیس کی تحقیقات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار تھے لیکن ان کے گھر والوں یا پولیس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی میں جمعرات کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر 15 نامزد افراد کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات کی ہونے والی تحقیقات نا مکمل ہیں اور اگر اس بنا پر ان افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو وہ رہا ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے نیب کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 23 جنوری کو اس مقدمے کی آئندہ سماعت کے موقع پر تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
عدالت اعظمیٰ نے رواں ہفتے کے اوائل میں نیب کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت سمیت 16 نامزد ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔
لیکن اس منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد سپریم کورٹ نے منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کر کے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جن کے پاس اس وقت وزارت پانی و بجلی کا قلمدان تھا۔
کامران فیصل قومی احتساب بیورو ’نیب‘ میں اسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور کرائے کے بجلی گھروں یا رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر 15 افراد کے خلاف تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ بن امین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ کامران فیصل کی لاش ان کے کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ بظاہر یہ خودکشی کا معاملہ لگتا ہے لیکن اُن کے بقول حتمی طور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا۔
کامران فیصل کا تعلق پنجاب کے علاقے میاں چنوں سے تھا اور وہ اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ میں مقیم تھے۔ کامران کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ رینٹل پاور کیس کی تحقیقات کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار تھے لیکن ان کے گھر والوں یا پولیس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی میں جمعرات کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر 15 نامزد افراد کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات کی ہونے والی تحقیقات نا مکمل ہیں اور اگر اس بنا پر ان افراد کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو وہ رہا ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے نیب کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 23 جنوری کو اس مقدمے کی آئندہ سماعت کے موقع پر تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
عدالت اعظمیٰ نے رواں ہفتے کے اوائل میں نیب کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت سمیت 16 نامزد ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔
لیکن اس منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد سپریم کورٹ نے منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کر کے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جن کے پاس اس وقت وزارت پانی و بجلی کا قلمدان تھا۔