اسلام آباد —
پاکستان کی قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر 15 نامزد افراد کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات کی ہونے والی تحقیقات ’’نامکمل اور ناقص‘‘ ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جمعرات کو پیشں ہو کر چیئرمین نیب فصیح بخاری نے کہا کہ ان تحقیقات میں اب تک ایسے ٹھوس ثبوت حاصل نہ ہو سکے جن کی بناء پر ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسران کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ کے تحت اگر کارروائی شروع کی گئی تو ملزمان رہا ہو جائیں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ شفاف اور آزادانہ تحقیقات کروانے کا ارادہ رکھتیں ہیں اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تحقیقات میں نہ تو میری طرف سے اور نہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے مداخلت ہوگی۔‘‘
عدالت اعظمیٰ نے منگل کو نیب کو وزیر اعظم سمیت 16 نامزد ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
نیب کی جانب سے جمعرات کی سماعت میں اس سے متعلق جواب پر عدالت اعظمیٰ نے نیب کو تمام رینٹل پاور پراجیکٹس پر ہونے والی تحقیقات کے ریکارڈ طلب کرکے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔
نیب کے وکیل کریم خان آغا نے عدالت میں کہا، ’’میرے خیال میں عدالت اپنی حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہ عدالت کا اختیار نہیں کہ وہ ریکارڈ طلب کرے۔‘‘
عدالت نے کریم آغا کے احتجاج کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ نیب نے گزشتہ دس ماہ میں عدالت اعظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور تاخیری حربے اپنائے۔
جس پر فصیح بخاری نے کہا کہ نیب نے سب سے پہلے ان منصوبوں میں لوٹی ہوئی تمام رقوم کو حاصل کیا اور اس کے بارے میں عدالت کو مسلسل مطلع کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے تاہم نیب کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کو احکامات جاری کیے کہ وہ 23 جنوری کو ہونے والی سماعت میں تمام رینٹل پاور پراجیکٹس سے متعلق پیش رفت کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔
بعد ازاں بدعنوانی کے الزامات پر عدالت اعظمیٰ نے 2010ء میں اس منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کرکے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جو کہ اس وقت وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جمعرات کو پیشں ہو کر چیئرمین نیب فصیح بخاری نے کہا کہ ان تحقیقات میں اب تک ایسے ٹھوس ثبوت حاصل نہ ہو سکے جن کی بناء پر ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسران کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ کے تحت اگر کارروائی شروع کی گئی تو ملزمان رہا ہو جائیں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ شفاف اور آزادانہ تحقیقات کروانے کا ارادہ رکھتیں ہیں اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تحقیقات میں نہ تو میری طرف سے اور نہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے مداخلت ہوگی۔‘‘
عدالت اعظمیٰ نے منگل کو نیب کو وزیر اعظم سمیت 16 نامزد ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
نیب کی جانب سے جمعرات کی سماعت میں اس سے متعلق جواب پر عدالت اعظمیٰ نے نیب کو تمام رینٹل پاور پراجیکٹس پر ہونے والی تحقیقات کے ریکارڈ طلب کرکے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔
نیب کے وکیل کریم خان آغا نے عدالت میں کہا، ’’میرے خیال میں عدالت اپنی حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہ عدالت کا اختیار نہیں کہ وہ ریکارڈ طلب کرے۔‘‘
عدالت نے کریم آغا کے احتجاج کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ نیب نے گزشتہ دس ماہ میں عدالت اعظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور تاخیری حربے اپنائے۔
جس پر فصیح بخاری نے کہا کہ نیب نے سب سے پہلے ان منصوبوں میں لوٹی ہوئی تمام رقوم کو حاصل کیا اور اس کے بارے میں عدالت کو مسلسل مطلع کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے تاہم نیب کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کو احکامات جاری کیے کہ وہ 23 جنوری کو ہونے والی سماعت میں تمام رینٹل پاور پراجیکٹس سے متعلق پیش رفت کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔
بعد ازاں بدعنوانی کے الزامات پر عدالت اعظمیٰ نے 2010ء میں اس منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کرکے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جو کہ اس وقت وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی تھے۔