پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے مبینہ مقدمات کی بحالی کے مقدمے کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر تے ہوئے شریف خاندان کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔
شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کی جانب سے ریفرنسز کی بحالی کی درخواست دائر کی گئی تھی اور ہفتہ کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں جب اس مقدمے سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف اور ان کے خاندان کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے کہا کہ پرانے مقدمات کی بحالی کا کوئی فائدہ نہیں اور ان کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی جائے۔
اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت عالیہ ان کے موکلئین کے خلاف نیب کے دائر کردہ ریفرنسز کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے اور ہائی کورٹ کے حکم امتناہی کو ختم کیے بغیر مقدمات دوبارہ بحال نہیں ہو سکتے۔
’نیب‘ کے وکیل چوہدری ریاض نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو کسی قسم کی کارروائی کرنے سے نہیں روکا۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے یہ مبینہ مقدمات سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائم کیے گئے تھے۔
لیکن نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی سن 2000ء میں جلاوطنی کے بعد ان مقدمات پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ تاہم قومی احتساب بیورو ’نیب‘ نے پرانے مقدمات کی بحالی کے لیے راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت ہفتہ کو ہوئی۔
شریف برداران کے وکیل اکرم شیخ نے سماعت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ شریف برداران کو وطن واپس آئے کئی سال ہو چکے ہیں اور ان کے بقول ایک ایسے وقت جب ملک میں آئندہ عام انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں 12 سال پرانے مقدمات کی بحالی کا مقصد شریف برداران کی سیاسی کردار کشی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ ان کی جماعت کے سربراہ اور شریف خاندان کے خلاف ایک دہائی سے زائد پرانے مقدمات کی بحالی کا مقصد انھیں سیاسی طور پر نشانہ بنانا ہے۔
’’اب یہ زرداری صاحب کو یاد آیا ہے کہ الیکشن کیوں کہ قریب ہے اور وہ اس کے شاید سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں …. میں نہیں سمجھتا کہ ان (مقدمات) میں کوئی جان ہے کہ یہ بھی دیگر کیسز کی طرح اپنی موت آپ مر جائیں گے۔‘‘
لیکن حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپوزیشن جماعت کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کسی کے خلاف سیاسی مقدمات قائم کرنے یا ان کی بحالی پر یقین نہیں رکھتی۔
’’ہم کسی کو سیاسی نشانہ نہیں بنا رہے، نا کوئی بدلا لیا جا تا ہے۔ اگر نیب یا کسی عدالت میں مقدمات زیر التوا ہیں اور وہ معمول کے مطابق کھولے جاتے ہیں تو اس سے حکومت کا تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اپنی مجرمانہ غلطیوں کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔‘‘
مہرین انوار راجہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور نا ہی حزب اختلاف کی جماعت کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کوئی مقدمہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آئند عام انتخابات کے صاف اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کی جانب سے ریفرنسز کی بحالی کی درخواست دائر کی گئی تھی اور ہفتہ کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں جب اس مقدمے سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف اور ان کے خاندان کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے کہا کہ پرانے مقدمات کی بحالی کا کوئی فائدہ نہیں اور ان کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی جائے۔
اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت عالیہ ان کے موکلئین کے خلاف نیب کے دائر کردہ ریفرنسز کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے اور ہائی کورٹ کے حکم امتناہی کو ختم کیے بغیر مقدمات دوبارہ بحال نہیں ہو سکتے۔
’نیب‘ کے وکیل چوہدری ریاض نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو کسی قسم کی کارروائی کرنے سے نہیں روکا۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے یہ مبینہ مقدمات سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائم کیے گئے تھے۔
لیکن نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی سن 2000ء میں جلاوطنی کے بعد ان مقدمات پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ تاہم قومی احتساب بیورو ’نیب‘ نے پرانے مقدمات کی بحالی کے لیے راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت ہفتہ کو ہوئی۔
شریف برداران کے وکیل اکرم شیخ نے سماعت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ شریف برداران کو وطن واپس آئے کئی سال ہو چکے ہیں اور ان کے بقول ایک ایسے وقت جب ملک میں آئندہ عام انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں 12 سال پرانے مقدمات کی بحالی کا مقصد شریف برداران کی سیاسی کردار کشی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ ان کی جماعت کے سربراہ اور شریف خاندان کے خلاف ایک دہائی سے زائد پرانے مقدمات کی بحالی کا مقصد انھیں سیاسی طور پر نشانہ بنانا ہے۔
’’اب یہ زرداری صاحب کو یاد آیا ہے کہ الیکشن کیوں کہ قریب ہے اور وہ اس کے شاید سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں …. میں نہیں سمجھتا کہ ان (مقدمات) میں کوئی جان ہے کہ یہ بھی دیگر کیسز کی طرح اپنی موت آپ مر جائیں گے۔‘‘
لیکن حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپوزیشن جماعت کے الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کسی کے خلاف سیاسی مقدمات قائم کرنے یا ان کی بحالی پر یقین نہیں رکھتی۔
’’ہم کسی کو سیاسی نشانہ نہیں بنا رہے، نا کوئی بدلا لیا جا تا ہے۔ اگر نیب یا کسی عدالت میں مقدمات زیر التوا ہیں اور وہ معمول کے مطابق کھولے جاتے ہیں تو اس سے حکومت کا تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اپنی مجرمانہ غلطیوں کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔‘‘
مہرین انوار راجہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور نا ہی حزب اختلاف کی جماعت کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کوئی مقدمہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آئند عام انتخابات کے صاف اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔