اسلام آباد —
پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے ملک کا آئین توڑنے کے الزامات پر سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور اس عمل میں ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے اس سلسلے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ وفاقی حکومت آئین کی پاسداری اور قانون کے مطابق یہ کارروائی کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
انہوں نے عدالت میں وفاقی حکومت کا تحریری بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عدالت اور پاکستانی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں انصاف کی اعلیٰ ترین اقدار کے مطابق اقدامات کریں گے۔
تاہم وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے آغاز سے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لینے کی غرض سے مشاورتی عمل شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے غداری کی کارروائی شروع کرنے کے لیے اسے وقت درکار ہوگا۔
قانون سازوں کو ’’اعتماد‘‘ میں لینے کی غرض سے اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے اپنی حکومت کے اس فیصلے سے قومی اسمبلی کو بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے بنچ نے مشاورتی عمل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں غداری کی کارروائی سے متعلق تمام طریقہ کار وضح ہونے کے بعد اس عمل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
جسٹس عارف خلجی کا کہنا تھا کہ ’’قتل کے معاملے پر حکومت فوراً تحقیقات کا آغاز کردیتی ہے اور یہاں تو آئین کا قتل ہوا ہے تو پھر حکومت کو اس بارے میں تحقیقات شروع کرنے سے کیا چیز روک رہی ہے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالتی کارروائی کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت کے رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا۔
’’(عدالت) کا کام نہیں ہے کہ وہ تحقیقات کی مانیٹرنگ کرے۔ آپ کو جو ہدایت دینی ہے دے دیں اور پھر حکومت پر چھوڑ دیں کہ وہ اس پر عمل کرتی ہے یا نہیں۔ عدالت تو اسوقت مانیٹرنگ کر رہی ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش معاشی و سلامتی کے مسائل کی وجہ سے ان کے بقول حکومت شاید اس پر کارروائی نا کرے۔
’’اگر ایسا ہوا اور 500 کے قریب افراد کے خلاف مقدمات کھل گئے تو حکومت کے لیے ہنی مون پیریڈ تو 90 دن کا ہے اور یہ تو 90 مہینوں میں بھی ختم نہیں ہوں گے جبکہ عوام بے روزگاری، توانائی کے بحران، غربت اور امن و امان کے مسائل کے حل کے لیے انتظار کرنے کو تیار نہیں۔‘‘
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ عدالت کو جمعرات تک حکومت کے ان اقدامات کے بارے میں مطلع کرے جو غداری کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کیے گئے ہیں جن میں سیکرٹری داخلہ کو کارروائی شروع کرنے کے احکامات، تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل اور ٹرائل کورٹ کا قیام بھی شامل ہیں۔
متعدد درخواستوں میں سابق صدر پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجسنی نافذ کی اور ساتھ ہی ساتھ ججوں کی نظر بندی کا حکم جاری کیا۔ پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے یہ فیصلہ اس وقت کے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور کور کمانڈروں کی مشاورت کے بعد کیا۔
پرویز مشرف کو 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کے علاوہ بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس پر مقید ہیں۔
پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے اس سلسلے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ وفاقی حکومت آئین کی پاسداری اور قانون کے مطابق یہ کارروائی کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
انہوں نے عدالت میں وفاقی حکومت کا تحریری بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عدالت اور پاکستانی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں انصاف کی اعلیٰ ترین اقدار کے مطابق اقدامات کریں گے۔
تاہم وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے آغاز سے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لینے کی غرض سے مشاورتی عمل شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے غداری کی کارروائی شروع کرنے کے لیے اسے وقت درکار ہوگا۔
قانون سازوں کو ’’اعتماد‘‘ میں لینے کی غرض سے اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے اپنی حکومت کے اس فیصلے سے قومی اسمبلی کو بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے بنچ نے مشاورتی عمل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں غداری کی کارروائی سے متعلق تمام طریقہ کار وضح ہونے کے بعد اس عمل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
جسٹس عارف خلجی کا کہنا تھا کہ ’’قتل کے معاملے پر حکومت فوراً تحقیقات کا آغاز کردیتی ہے اور یہاں تو آئین کا قتل ہوا ہے تو پھر حکومت کو اس بارے میں تحقیقات شروع کرنے سے کیا چیز روک رہی ہے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالتی کارروائی کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت کے رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا۔
’’(عدالت) کا کام نہیں ہے کہ وہ تحقیقات کی مانیٹرنگ کرے۔ آپ کو جو ہدایت دینی ہے دے دیں اور پھر حکومت پر چھوڑ دیں کہ وہ اس پر عمل کرتی ہے یا نہیں۔ عدالت تو اسوقت مانیٹرنگ کر رہی ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش معاشی و سلامتی کے مسائل کی وجہ سے ان کے بقول حکومت شاید اس پر کارروائی نا کرے۔
’’اگر ایسا ہوا اور 500 کے قریب افراد کے خلاف مقدمات کھل گئے تو حکومت کے لیے ہنی مون پیریڈ تو 90 دن کا ہے اور یہ تو 90 مہینوں میں بھی ختم نہیں ہوں گے جبکہ عوام بے روزگاری، توانائی کے بحران، غربت اور امن و امان کے مسائل کے حل کے لیے انتظار کرنے کو تیار نہیں۔‘‘
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ عدالت کو جمعرات تک حکومت کے ان اقدامات کے بارے میں مطلع کرے جو غداری کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کیے گئے ہیں جن میں سیکرٹری داخلہ کو کارروائی شروع کرنے کے احکامات، تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل اور ٹرائل کورٹ کا قیام بھی شامل ہیں۔
متعدد درخواستوں میں سابق صدر پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجسنی نافذ کی اور ساتھ ہی ساتھ ججوں کی نظر بندی کا حکم جاری کیا۔ پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے یہ فیصلہ اس وقت کے وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور کور کمانڈروں کی مشاورت کے بعد کیا۔
پرویز مشرف کو 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کے علاوہ بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس پر مقید ہیں۔