اسلام آباد —
پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے ہفتے کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے عینی شاہدین کو اپنے بیانات قلم بند کروانے کا حکم دیا۔
دارالحکومت اسلام آباد میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس پر ہونے والی عدالتی کارروائی میں دفاع کے وکیل الیاس صدیقی کے مطابق سابق صدر کے خلاف لگائے گئے الزامات کی فہرست پڑھ کر سنائی گئی تاہم ان کے موکل نے ان الزامات کو صریحاً مسترد کیا۔
’’انہیں چارج کیا گیا ہے۔ مگر ہم نے درخواست دائر کی ہے کہ ان کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں (پرویز مشرف) بری کیا جائے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا کہ اس مقدمے میں کم از کم ایک درجن وکیل گواہان ہیں جنھوں نے سابق فوجی سربراہ پر الزامات لگائے ہیں کہ انہوں نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو نظر بند کیا تھا۔
ججوں کی نظر بندی کیس کے مرکزی درخواست گزار وکیل اسلم گھمن اس مقدمے کی پیروی کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ رواں ہفتے پرویز مشرف کو اس مقدمے میں ضمانت پر رہائی دے چکی ہے۔
مارچ میں تقریباً چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے کے بعد پرویز مشرف کو ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے جن میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات شامل ہیں۔
گزشتہ روز پولیس نے سابق صدر کو نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں ان کے فارم ہاؤس پر باقاعدہ اپنی تحویل میں لیا۔ پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کوسب جیل قرار دیا گیا ہے۔
سابق فوجی سربراہ کے خلاف 2007ء میں آئین توڑنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں جس پر وفاقی حکومت نے ابھی اپنا موقف پیش کرنا ہے۔ پاکستان کا آئین ایسی کسی قسم کی کارروائی کا اختیار وفاقی حکومت کو دیتا ہے۔
ججوں کی نظر بندی کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس پر ہونے والی عدالتی کارروائی میں دفاع کے وکیل الیاس صدیقی کے مطابق سابق صدر کے خلاف لگائے گئے الزامات کی فہرست پڑھ کر سنائی گئی تاہم ان کے موکل نے ان الزامات کو صریحاً مسترد کیا۔
’’انہیں چارج کیا گیا ہے۔ مگر ہم نے درخواست دائر کی ہے کہ ان کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں (پرویز مشرف) بری کیا جائے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا کہ اس مقدمے میں کم از کم ایک درجن وکیل گواہان ہیں جنھوں نے سابق فوجی سربراہ پر الزامات لگائے ہیں کہ انہوں نے نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو نظر بند کیا تھا۔
ججوں کی نظر بندی کیس کے مرکزی درخواست گزار وکیل اسلم گھمن اس مقدمے کی پیروی کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ رواں ہفتے پرویز مشرف کو اس مقدمے میں ضمانت پر رہائی دے چکی ہے۔
مارچ میں تقریباً چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے کے بعد پرویز مشرف کو ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے جن میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات شامل ہیں۔
گزشتہ روز پولیس نے سابق صدر کو نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں ان کے فارم ہاؤس پر باقاعدہ اپنی تحویل میں لیا۔ پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کوسب جیل قرار دیا گیا ہے۔
سابق فوجی سربراہ کے خلاف 2007ء میں آئین توڑنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں جس پر وفاقی حکومت نے ابھی اپنا موقف پیش کرنا ہے۔ پاکستان کا آئین ایسی کسی قسم کی کارروائی کا اختیار وفاقی حکومت کو دیتا ہے۔
ججوں کی نظر بندی کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی ہے۔