پاکستان کے سابق فوجی صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 18 فروری کو ضامن سمیت طلب کیا ہے۔
تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ کو طلب کر رکھا تھا اور اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کیے گئے تھے لیکن سابق صدر اس بار بھی عدالت میں پیش نا ہوئے۔
سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ سابق صدر 18 فروری کو پیش ہوں گے۔ اس بارے میں سابق صدر کی وکلا ٹیم میں شامل ایک وکیل محمد علی سیف نے بتایا کہ ’’یقیناً انور منصور صاحب نے یہ کہا کہ سابق صدر عدالت میں پیش ہوں گے۔‘‘
خصوصی عدالت نے کہا کہ اگر ملزم پیش ہو کر یہ استدعا کرے کہ عدالت کی تشکیل اور اس کے دائرہ اختیار سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک اُن کے خلاف فرد جرم عائد نا کی جائے تو اُس پر غور کیا جا سکتا ہے۔
پرویز مشرف پر غداری کیس میں تاحال فرد جرم بھی عائد نہیں کی جا سکی ہے کیوں اس کے لیے ملزم کا عدالت کے روبرو پیش ہونا ضروری ہے۔
اس بارے میں وکیل صفائی بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ ’’ہم نہیں سمجھتے کہ عدالت اُن پر فرد جرم عائد کر سکتی ہے، جب تک کہ عدالت ہمارے اعتراضات پر فیصلہ نا کر دے۔‘‘
عدالت پرویز مشرف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی درخواست بھی مسترد کر چکی ہے۔
مقدمے کی آئندہ سماعت 10 فروری کو ہو گی لیکن اس موقع پر پرویز مشرف کی حاضری ضروری نہیں ہے۔
سابق صدر کے وکلاء کا موقف ہے کہ اُن کے موکل کے خلاف کارروائی صرف فوجی عدالت ہی میں چلائی جا سکتی ہے اور اس بارے میں پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا 10 فروری کو خصوصی عدالت میں دلائل دیں گے۔
سابق صدر تاحال خصوصی عدالت میں کسی ایک بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئے اور دو جنوری سے راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ کو طلب کر رکھا تھا اور اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کیے گئے تھے لیکن سابق صدر اس بار بھی عدالت میں پیش نا ہوئے۔
سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ سابق صدر 18 فروری کو پیش ہوں گے۔ اس بارے میں سابق صدر کی وکلا ٹیم میں شامل ایک وکیل محمد علی سیف نے بتایا کہ ’’یقیناً انور منصور صاحب نے یہ کہا کہ سابق صدر عدالت میں پیش ہوں گے۔‘‘
خصوصی عدالت نے کہا کہ اگر ملزم پیش ہو کر یہ استدعا کرے کہ عدالت کی تشکیل اور اس کے دائرہ اختیار سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک اُن کے خلاف فرد جرم عائد نا کی جائے تو اُس پر غور کیا جا سکتا ہے۔
پرویز مشرف پر غداری کیس میں تاحال فرد جرم بھی عائد نہیں کی جا سکی ہے کیوں اس کے لیے ملزم کا عدالت کے روبرو پیش ہونا ضروری ہے۔
اس بارے میں وکیل صفائی بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ ’’ہم نہیں سمجھتے کہ عدالت اُن پر فرد جرم عائد کر سکتی ہے، جب تک کہ عدالت ہمارے اعتراضات پر فیصلہ نا کر دے۔‘‘
عدالت پرویز مشرف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی درخواست بھی مسترد کر چکی ہے۔
مقدمے کی آئندہ سماعت 10 فروری کو ہو گی لیکن اس موقع پر پرویز مشرف کی حاضری ضروری نہیں ہے۔
سابق صدر کے وکلاء کا موقف ہے کہ اُن کے موکل کے خلاف کارروائی صرف فوجی عدالت ہی میں چلائی جا سکتی ہے اور اس بارے میں پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا 10 فروری کو خصوصی عدالت میں دلائل دیں گے۔
سابق صدر تاحال خصوصی عدالت میں کسی ایک بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئے اور دو جنوری سے راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔