رسائی کے لنکس

پرویز مشرف کیس میں گواہان پر جرح کا آغاز


وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں 2007ء میں آئین معطل کرنے کے عمل میں کسی اور فرد کی نشاندہی نہیں کی گئی اس لیے اس مقدمے میں فوج کے سابق سربراہ کے علاوہ کسی کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی سے متعلق مقدمے کی سماعت میں بدھ کو وفاقی سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کے آغاز کی وزیراعظم یا کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، بلکہ یہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کی روشنی میں شروع کی گئی۔

حکومت کی قائم کردہ عدالت عالیہ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے سیکرٹری داخلہ شاہد خان کا پیش ہو کر جرح کے دوران کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں 2007ء میں آئین معطل کرنے کے عمل میں کسی اور فرد کی نشاندہی نہیں کی گئی اس لیے اس مقدمے میں فوج کے سابق سربراہ کے علاوہ کسی کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

تاہم وکیل دفاع کے سوال پر کہ اس سے پہلے ایسے آئین شکنی کے واقعات پر کوئی کارروائی شروع کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے پاس اس کے لیے وقت نا تھا۔‘‘

پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس جرح کے عمل کو اپنے موکل کے خلاف قائم مقدمے کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔

’’فوجداری یا سول مقدمے میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ اگر عدالت کو کچھ آگاہی نہیں ہے تو دونوں فریق چیزیں بتائیں گے اور ریکارڈ پر لائیں گے۔ اس کا ایک مخصوص طریقہ کار ہوتا ہے اور اگر اسے صحیح انداز میں نا کیا جائے تو پھر عدالت کہتی ہے کہ یہ تو ریکارڈ پر آیا نہیں اس لیے اس پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔‘‘

پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں آئین کو معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ کے ججوں سمیت درجنوں کو معزول کیا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ملک میں آرٹیکل 6 کا نفاذ 1956ء سے ہوا جس کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے مگر ان کے موکل ہی کے خلاف ایسی کارروائی آئین میں مساوی حقوق سے متعلق شقوں کے منافی ہے۔

’’ایسا کیوں ہوا کہ صرف 3 نومبر 2007ء کے اقدام پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنایا گیا اور صرف فرد واحد پر۔ کئی اور آرٹیکل 6 کے واقعات ہیں اور سیکرٹری صاحب نے بھی یہ تسلیم کیا مگر کہا کہ میرے پاس وقت نا تھا۔ تو میرا سوال تھا کہ دیگر واقعات کے لیے وقت نا تھا اور اس کے لیے تھا۔ تو یہ امتیازی سلوک ہے۔‘‘

پرویز مشرف کہہ چکے ہیں کہ 2007ء کے اقدامات انہوں نے اس وقت کے سیاسی اور عسکریت رہنماؤں کی مشاورت سے کیے۔ چند سیاسی رہنما بھی فوج کے سابق سربراہ کی طرف سے گواہ کے طور پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی پیش کش کر چکے ہیں۔

پرویز مشرف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر خوش نہیں۔

XS
SM
MD
LG